بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا آخری مغل بادشاہ تھا‘ یہ 62سال کی عمر میں 1837 میں تخت نشین ہوا اور 1857کی شکست تک ہندوستان کا فرماں روا رہا‘ وہ ایک بدقسمت بادشاہ تھا۔
اس نے تخت سنبھالا تو مراٹھے دہلی کے مضافات تک آدھی سلطنت پر قابض ہو چکے تھے جب کہ باقی سلطنت ایسٹ انڈیا کمپنی ہڑپ کر چکی تھی لہٰذا بہادر شاہ ظفر کی سلطنت دلی تک محدود تھی‘ آباؤ اجداد تھوڑا سا خزانہ چھوڑ گئے تھے اور وہ خزانے کی اشیاء بیچ بیچ کر گزارا کرتا رہا‘ شہزادے کبوتر باز تھے۔
وہ سارا دن کبوتر بازی کرتے تھے اور رات طوائفوں کے مجروں میں گزار دیتے تھے‘ بادشاہ شاعری اور شراب کا رسیا تھا‘ وہ رات بھر مشاعرے بھگتاتا تھا اور صبح کی نماز پڑھ کر ظہر تک سویا رہتا تھا‘ شہر میں رشوت‘ لوٹ کھسوٹ‘ چوری چکاری اور رسہ گیری عام تھی‘ دلی کے لوگ زبان ساز تھے‘ انھوں نے اس زمانے کو ’’طوائف الملوکی‘‘ کا نام دے دیا اور یہ اصطلاح بعدازاں ادب کا حصہ بن گئی‘ بہرحال قصہ مختصر 1857کی جنگ شروع ہوئی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستانی فوجی اکٹھے ہوئے‘ بادشاہ کے پاس آئے‘ اس کی غیرت کو ہوا دی اور اس نے اپنی سلطنت بچانے کی آخری سعی کا فیصلہ کر لیا‘ بادشاہ کو فوجی لباس پہنا کر ہاتھی پر بٹھایا گیا لیکن 82 سال کی عمر‘ ناتوانی‘ کثرت شراب نوشی‘ چھ بیگمات اور 31 کنیزوں کی وجہ سے بادشاہ زیادہ دیر تک ہاتھی پر بیٹھ نہ سکا‘ وہ لڑھک گیا‘ تلوار بھی اسے بھاری محسوس ہوئی اور اس نے وہ بھی ہاتھی کی پیٹھ پر لٹا دی۔
ان حالات میں جنگ خاک ہونی تھی‘ گورا آیا اور دلی بھی کمپنی سرکار کے قبضے میں چلی گئی جس کے بعد 20 ستمبر 1857 کو بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کر لیا گیا‘ میجر ہڈسن نے اس کے بیٹوں اور پوتوں کو گولی مار دی‘ لال قلعہ میں بہادر شاہ ظفر کا مقدمہ چلا اور 1858میں اسے اس کی بیگم زینت محل کے ساتھ رنگون بھجوا دیا گیا۔
بادشاہ اس وقت سلطنت‘ محل‘ خزانے اور خاندان سے محروم ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود وہ بادشاہ تھا‘ اسے جب رنگون بھجوانے کے لیے کمپنی کے بحری جہاز میں سوار کیا جا رہا تھا تو ایک قلی آگے بڑھا اور جھک کر سابق بادشاہ کو سلام کیا‘ مغل بادشاہوں کی روایت تھی یہ لوگ جھک کر سلام کرنے والوں کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھجوایا کرتے تھے۔
بادشاہ نے قلی کو جھکتے اور سلام کرتے دیکھا تو بے اختیار جیب میں ہاتھ ڈالا‘ اس وقت اس کی جیب میں عقیق کی ایک تسبیح کے سوا کچھ نہیں تھا‘ اس نے وہ تسبیح نکالی اور قلی کے ہاتھ میں پکڑا دی‘ یہ معزول بادشاہ کا کسی ہندوستانی شہری کے لیے آخری تحفہ تھا‘ بہادر شاہ ظفر نے چار سال رنگون میں قید میں گزارے‘ وہ قید کے دوران کسی ہندوستانی سے نہیں ملا‘ کیوں؟
اس کی بیگم زینت محل کے مطابق بادشاہ کے پاس ملاقاتیوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا اور یہ اس کی غیرت کو گوارہ نہیں تھا کوئی اسے ملنے آئے اور وہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دے لہٰذا اس نے ملاقاتوں سے انکار کر دیا تاہم اگر انگریز سرکار کا کوئی اہلکار یا ڈاکٹر اس کا حال احوال معلوم کرنے آتا تھا تو بادشاہ اسے بھی رخصت کرتے وقت اپنی قمیض‘ اپنے جوتے اور بعض اوقات اپنی چادر تک عنایت کر دیتا تھا اور وصول کرنے والے کا ماتھا پسینے سے تر ہو جاتا تھا‘ بادشاہ نے قید کے دوران بھی انگریز اہلکاروں سے کوئی چیز وصول نہیں کی‘ ڈاکٹر ادویات تک بادشاہ کے ملازموں کو دیتے تھے اور وہ انھیں پلاتے تھے۔
بادشاہ کے لیے کپڑوں‘ جوتوں اور چادروں کا انتظام بھی خادموں کے ذریعے کیا جاتا تھا اور اس کے لیے کھانے پینے کا سامان بھی ملکہ عالیہ اور ملازمین کو دیا جاتا تھا‘ بادشاہ کے برتن بھی مٹی کے تھے لیکن اس کے اپنے تھے اور اس نے آخری سانس تک چمچ بھی اپنی استعمال کی اور موت سے پہلے اپنا یہ سامان بھی اپنے خادموں میں بانٹ دیا تھا۔
یہ بہادر شاہ ظفر 1862 میں 87 سال کی عمر میں فوت ہوا‘ رنگون میں دفن ہوا اور یوں ہندوستان میں مغل سلطنت کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا لیکن بجھتے بجھتے یہ بتا گیا بادشاہ حالات سے نہیں بلکہ دل سے بادشاہ ہوتے ہیں اور یہ اگر قید میں بھی ہوں اور اگر ان کی جیبیں خالی بھی ہوں تو بھی یہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے‘ ان کا ہاتھ اس وقت بھی اوپر ہوتا ہے‘ نیچے نہیں۔
ہمیں تاریخ بتاتی ہے بادشاہت ہو یا غربت ان کا مرکز ذہن ہوتا ہے اور یہ ذہنوں سے نکلتے نکلتے چار نسلیں لگا دیتی ہے‘ بادشاہ کو غریب ہونے میں چار نسلیں لگ جاتی ہیں اور غریبوں کو امیر بنتے بنتے بھی تین چار نسلیں چاہیے ہوتی ہیں۔
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے غربت ہو یا امارت یہ ذہن سے ہمیشہ آخر میں نکلتی ہے لیکن یہ نکلتے نکلتے بھی اپنے آثار چھوڑ جاتی ہے‘ پرانے زمانوں میں شہزادوں اور شہزادیوں کے اصلی ہونے کا اندازہ کرنے کے لیے ان کے بستر میں مٹر کا دانا رکھ دیا جاتا تھا اگر شہزادی یا شہزادہ مٹر کے اس دانے کے باوجود اطمینان سے سو جاتا تھا تو ثابت ہو جاتا تھا وہ جعلی ہے یا کم از کم نجیب الطرفین نہیں ہے۔
یہ خیال کیا جاتا تھا شہزادہ ہو یا شہزادی ہو اور اسے بستر میں مٹر کے دانے کی موجودگی میں نیند آ جائے یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ دور ختم ہو گیا لیکن آج کسی کے نجیب الطرفین اور ذہنی بادشاہت کے اندازے کے لیے توشہ خانہ کافی ہے‘ آپ کسی شخص کو تحفہ دے کر دیکھ لیں آپ کو اس کی ساری اوقات سمجھ آ جائے گی‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ توشہ خانہ کی تازہ ترین رپورٹ پڑھ لیں‘ حکومت نے ہائی کورٹ کے حکم پر 20 سال کے تحائف کی 446 صفحات کی رپورٹ جاری کر دی‘ یہ رپورٹ ہمارے حکمران طبقے کی ذہنی افلاس کا مکمل نوحہ ہے۔
آپ کروڑوں روپے کی گھڑیاں‘ کف لنکس‘ پین‘ مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو گاڑیاں سائیڈ پر رکھ دیں‘ یہ تحفے قیمتی ہیں اور یہ دیکھ کر شاید کوئی بھی شخص اپنا دل مضبوط نہ رکھ سکے لیکن ہمارے حکمرانوں نے بیڈ شیٹس‘ گلاس سیٹ‘ کٹلری سیٹ‘ چادریں‘ گلدان‘ دس دس ہزار روپے کی پینٹنگز‘ گائے کا ماڈل‘ کافی‘ صراحی‘ خنجر‘ پیالہ‘ بک لیٹس‘ٹریکٹر‘ چاکلیٹ‘ شہد‘ قہوہ اور پائن ایپل کا ڈبہ بھی نہیں چھوڑا‘ توشہ خانہ کی رپورٹ میں پچاس پچاس روپے کی اشیاء بھی شامل ہیں۔
میں کسی ایک شخص کا نام نہیں لکھ رہا کیوں کہ 446 صفحات کے اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں‘ یہ خواہ سیاست دان ہوں یا فوجی عہدیدارہوں یاسرکاری افسر ہوں پوری اشرافیہ نے کمال کر دیا اور یہ یاد رکھیں یہ تمام لوگ انتہائی امیر ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں دولت‘ شہرت اور اقتدار سے نواز رکھا ہے لیکن یہ دل کے انتہائی فقیر ہیں۔
اس لسٹ سے یہ بھی ثابت ہو گیا بادشاہت اور غربت کا پیسے اور عہدے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ انسان اگر اندر سے بادشاہ ہے تو پھر یہ بہادر شاہ ظفر کی طرح قید میں بھی بادشاہ رہتا ہے اور اگر یہ دل سے بھکاری ہے تو پھر یہ ایوان صدر‘ وزارت عظمیٰ‘ آرمی چیف ہاؤس‘ سپریم کورٹ اور سیکریٹریٹ میں بھی فقیر ہی رہے گا‘ اس کا ہاتھ پھیلا ہی رہے گا۔ہم نے ماضی میں جو بھی کیا ہم نے کر دیا‘ ہمیں بہرحال اب سنبھل جانا چاہیے۔
ہمیں اب رک کر کم از کم توشہ خانے کی پالیسی ضرور بنا لینی چاہیے‘ ہم اسلام آباد میں توشہ خانہ میوزیم بنا دیں اور تمام ممالک کے تحائف ان میں رکھ دیا کریں یا پھر ہر سال ان کی اوپن نیلامی کر کے فروخت کر دیا کریں یا پھر ہم احسن اقبال کی پیروی کریں۔
احسن اقبال نے تین تحائف وصول کیے تھے‘ یہ دو رولیکس گھڑیاں اورکارپٹ تھا‘ انھوں نے قانون کے مطابق 20 فیصد رقم ادا کر کے یہ تحائف لے لیے تھے لیکن رپورٹ آنے کے بعد احسن اقبال نے تحائف کی سو فیصد رقم ادا کر دی‘ حکومت ماضی کی غلطیاں درست کرنے کے لیے یہ پیش کش تمام ’’تحائف برادران‘‘ کو دے سکتی ہے۔
یہ لوگ بھی سو فیصد رقم جمع کرا کر اپنا ماضی ٹھیک کر لیں‘ دوسرا میں نے فہرست میں ایس ایس جی کے گن مین سپاہی عتیق الرحمن اور کانسٹیبل ملک قاسم محمود کے نام دیکھے‘ یہ دونوں غریب اہلکار ہیں۔
معمولی تنخواہ میں گزارا کرتے ہیں لیکن یہ لوگ دل کے کتنے بڑے بادشاہ ہیں آپ ان کے عمل سے دیکھ لیجیے‘ انھیں بھی گھڑیاں ملیں لیکن انھوں نے یہ توشہ خانہ میں جمع کرا دیں اور 20 فیصد ادا کر کے بھی یہ تحفے حاصل نہیں کیے جب کہ یہ لوگ جن لوگوں کی حفاظت کر رہے تھے وہ یہ تحائف غائب کرتے رہے یا پھر 20 فیصد رقم دے کر تحفے گھر لے گئے لہٰذا آپ دل کے بادشاہ اور دل کے فقیر کا فرق ملاحظہ کر لیجیے۔
میں آخر میں آپ کو ایک امریکی نائب سیکریٹری کا واقعہ بھی سناتا چلوں‘ہمارے ایک سابق وزیراعظم کی اس سے ملاقات طے تھی‘ اس نے ملاقات سے قبل چیف آف پروٹوکول کو فون کر کے کہا ’’سر ہم جانتے ہیں آپ لوگوں کے قالین بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن آپ مہربانی فرما کر مجھے قالین کا تحفہ نہ دیجیے گا کیوں کہ یہ مجھے اپنے کندھے پر اٹھا کر دفتر لے جانا پڑے گا اور پھر اسے خزانے میں جمع کرانا ایک مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے اور میں اس سے گزر گزر کر تھک چکا ہوں۔
میں میٹنگ کے لیے آ رہا ہوں‘ میٹنگ میری ڈیوٹی ہے اور میں آپ سے اس ڈیوٹی کے عوض کچھ حاصل نہیں کرسکتا‘ میں ایس او پیز کے مطابق اپنے میزبان سے کافی اور چائے کے کپ کے علاوہ کچھ نہیں لے سکتا چناں چہ آپ مجھے بھی خفت سے بچا لیجیے گا اور وزیراعظم کو بھی‘‘اور یہ اس ملک کی اخلاقیات ہے جسے ہم روزانہ گالی دیتے ہیں۔