اسلام آباد( نمائندہ خصوصی) پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کو گزشتہ بیس گھنٹوں سے گرفتار کرنے کی کوشش کرنے والی اسلام آباد اور لاہور پولیس کے سامنے تحریک انصاف کے کارکن اور حمایتی سیسہ پلائ ہوئ دیوار بن گئے ہیں اور انہوں نے پولیس کوعمران خان کی لاہور زمان پارک میں واقع رہائش گاہ سے قریبا ایک میل دور پیچھے تک دھکیل دیا ہے ، یہاں پولیس کے مستند ترین ذرائع نے انکشاف کیا ہے ، عمران خان کے کارکن جو پولیس پر پیٹرول بموں کے ساتھ دیگر کمیکل مواد پر مشتمل ہتھیار بھی استعمال کررہے ہیں اور ان ہتھیار کے نشانے پر آنے والے پولیس اہلکار فوری گر کر بہیوش ہوجاتے ہیں ، گزشتہ بیس گھنٹوں سے جاری مذکوہ آپریشن میں ڈی آی جی آپریشن اسلام آباد اور متعدد اعلی پولیس افسران سمیت درجنوں پولیس اہلکار ذخمی بتائے جاتے ہیں ، ذمہ دار ذرائع نے انکشاف کیا ہے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کرنے والے جُتھوں میں کے پی کے سے آئے کارکنوں کے بھیس میں تحریک طالبان پاکستان کے دھشت گرد بھی شامل ہیں جو علی امین گنڈا پور ، مراد سعید اور دیگر کے پی کے ، کے تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کی جانب سے عمران خان کی حفاظت کے لئیے بھیجے گئے جھتوں میں شامل ہوکر پہنچے ہیں ، پولیس کے انتہائ ذمہ دار زرائع نے انکشاف کیا ہے ، پولیس کو اعلی حکام نے حکم دیا ہے وہ حکمت عملی کے تحت بتدریج پیچھے ہٹتے جائیں کیونکہ تحریک طالبان نے پولیس حکام کو پیغام پہنچایا ہے اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو لاہور کے شہریوں کے ساتھ پولیس اور رینجرز کو بھاری قیمت ادا کرنے کے لئیے تیار رہنا چائیے ، ذمدار پولیس ذرائع کا دعوی ہے عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں مسلسل غیر حاضری اور ایک بار پہلے بھی بلا ضمانت وارنٹ گرفتاری کی کوشش کی عمران خان کی جانب سے دھجیاں اڑانے کے بعد دوسری بار بلا ضمانت وارنٹ گرفتاری لیکر آئے ڈی آئ جی آپریشن پولیس اسلام آباد کی سربراہی میں جانے والی پولیس ٹیم جسے لاہور پولیس کا تعاون حاصل ہے ، اور جو واٹر کینن ، آنسو گیس اور ڈنڈوں کے علاوہ مکمل غیر مسلح ہے اور عمران خان کی حفاظت کرنے والے جھتے اور اس میں شامل تحریک طالبان کے دھشت گرد پولیس کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا ڈٹ کر مقابلہ کرتے نظر آ رہے ہیں ، ادھر عمران خان اور انکے ساتھی رہنماؤں نے غیر ملکی میڈیا اور عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کرنے والے کارکنوں کے جتھوں سے متعدد بار خطاب کرتے ہوئے کہا ہے عمران خان نے کسی صورت پولیس کو گرفتاری نہیں دینی ، ابھی چند گھنٹے قبل تحریک انصاف کے ایک رہنما فرخ حبیب نے خان کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کرنے والے ایک جھتے سے خان کی رہائش گاہ کے گیٹ پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے “ دشمن ابھی بھاگا نہیں ہے ، ہمیں تیار رہنا ہوگا وہ ابھی ہمارے قائد کو گرفتار کرنے کی ایک کوشش اور کریں گے جسے ہم نے ہر صورت ناکام بنانا ہے ، اسلام آباد کے ایک اہم سیاسی ذریعہ نے دعوی کیا ہے ، فوج کی جانب سے بھی حکومت سے کہا گیا ہے عمران خان کی گرفتاری کے لئیے جاری آپریشن میں کسی صورت انسانی جانوں کا زیاں نہیں ہونا چائیے ، اس ذریعہ کا دعوی ہے فون میں ایک بڑا طبقہ خان کی گرفتاری کے خلاف ہے اور اس نے اپنی قیادت کو دھمکی دی ہے اگر خان کی گرفتاری کے دوران جانی نقصان ہوا تو فوج کے ادارے میں بڑے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں ، اسلام کے ذمہ دار ذرائع کا یہ دعوی بھی ہے ، خان کی گرفتاری کے لئیے کئیے جانے والے پولیس آپریشن کے دوران عمران خان کی جانب سے کی جانے والی مزاحمت کو لال مسجد آپریشن سے مماثلت دی جارہی ہے جو مشرف کے فوجی دور حکومت میں اسلام آباد میں کیا گیا تھا جسکے دوران دونوں جانب سے سو سے زائد افراد مارے گئے تھے اور جس کے نتیجے میں دھشت گردوں نے پورے ملک میں انتقامی کاروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا تھا جبکہ ہلاک ہونے والے ان افراد میں ایک بھاری تعداد فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل تھی ، تاہم لال مسجد آپریشن کے لئیے جانے والے فوجی اہلکار جدید ہتھیاروں سے لیس تھے اور لال مسجد میں چھپے دھشت گردوں نے بھی فوجی آپریشن کے خلاف جدید ترین ہتھیاروں سے مذاحمت کی تھی ، یہاں عمران خان کی گرفتاری کے لئیے جانے والی پولیس فورس مکمل غیر مسلح بتائ جاتی ہے جس کا سبب کسی بڑے سانحہ سے لاہور اور ملکی عوام کو محفوظ رکھنا بتایا جاتا ہے ، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پولیس اور خان کے جھتوں کے درمیان گھمسان کا مقابلہ جاری ہے اور مختلف میڈیا ذرائع کا دعوی ہے جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے خان کی گرفتاری کا ٹارگٹ دور ہوتا جارہا ہے ، ادھر عمران خان نے لاہور ہائ کورٹ بار کے صدر کے ذریعے اٹھارہ مارچ کو از خود پیش ہونے کی انڈر ٹیکنگ دیکر اعلی حکام کے پاس بھیجا تھا تاہم پولیس کے اعلی حکام نے بار کے صدر سے ملنے سے انکار کردیا ہے ، تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائ کورٹ میں خان کے ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ کے خلاف ایک بار پھر پٹیشن دائر کردی ہے جسکی سماعت آج منگل کو ہوگی اور تحریک انصاف کا خیال ہے صورت حال کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے عدالت خان کی ضمانت میں اٹھارہ مارچ تک کی توسیع کرتے ہوئے وارنٹ گرفتاری معطل کردے گی ، جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے موجودہ سنگین صورت حال میں کہ جس کے دوران عمران خان جھتوں کی مدد سے اپنی گرفتاری کے خلاف باقاعدہ مسلح مزاحمت کررہے ہیں اور ملکی عوام کو کھلے عام میڈیا کے ذریعے عدالت کی جانب سے اپنی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کے لئیے اکسا رہے ہیں عدالت کے لئیے انکی ضمانت کی توسیع انتہائ مشکل کام ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو نہ صرف ملک میں سیاسی بے چینی کو فروغ ملے گا بلکہ سندھ اور بلوچستان اور کے پی کے میں علیحدگی پسندوں کے حوصلے بلند ہونگے ، ان ذرائع کا دعوی ہے پاکستان کی پچھتر سالہ سیاسی تاریخ میں عدالت کے ذریعہ سیاست دانوں کو پھانسی کی سزا سے لیکر ہر قسم کی سزا و برطرفی کا سامنا کرنا پڑا جو بعد ازاں ثابت بھی ہوگیا عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر مخصوص مفاد کے حصول کے لئیے اسٹیبلشمنٹ کے حق میں فیصلے سنانے کے کام پر مامور ہے تاہم اس کے باوجود ملک کے کسی سیاسی رہنما نے ریاست کے قوانین کو نہ ہی چیلنج کیا اور نہ ہی مذاحمت کی ، عمران خان کی جانب سے ایک عدالتی حکم پر گرفتاری کے خلاف باقاعدہ مسلح مزاحمت نے ایک بڑا سوال کھڑا کردیا ہے کہ آیا اب دوسرے سیاسی سماجی رہنما اور کارکن یا کوئ بھی شہری جسے شبہ ہو عدلیہ کے ذریعے ریاست مطعون بنانا چاہتی ہے ، وہ اب خان کی مزاحمت کو بنیاد بنا کر ریاستی عدالتی احکامات کو اپنی طاقت کے ذریعے اٹھا کر پھینکنے کی کوشش کرسکتا ہے ، جبکہ کوئٹہ سے ایک سیاست دان نے نام نہ بتانے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے ، اگر آج عمران خان گرفتاری بھی نہیں دیتا اور عدالت اسکی ضمانت میں توسیع بھی کردیتی ہے تو برباد معشیت اور خوفناک سیاسی کشیدگی میں وفاق اور صوبوں کے درمیان الحاق برقرار رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج بنکر سامنے آنے والا ہے