کراچی(نمائندہ خصوصی) صارفین کی نمائندہ تنظیم کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے زیر اہتمام صارفین کے عالمی دن اور خواتین کے عالمی دن کی مشترکہ تقریب بروز بدھ 15 مارچ کو پرل کانٹینینٹل ہوٹل کراچی میں منعقد کی جائے گی۔یہ بات کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے کیپ کے دفتر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ مارچ کا مہینہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ 8 مارچ کو عالمی سطح پر خواتین کا دن منایا جاتا ہے جبکہ 15 مارچ کو صارفین کا عالمی دن ہوتا ہے۔اس لئے کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کی خواتین ونگ کی چیئرپرسن سیدہ رافیعہ ماموں جی نے دونوں دن ایک ساتھ منانے کے لیے پروگرام ترتیب دیا ہے۔مختلف شعبہ زندگی میں نمایاں کارکردگی انجام دینے والی خواتین کو پاکستان کی مشہور و معروف اور خواتین کے لیے کلیدی کردار ادا کرنے والی خواتین جس میں محترمہ فاطمہ جناح ،محترمہ بیگم رعنا لیاقت علی خان ، محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام سے موسوم ایوارڈز دیئے جائیں گے۔ تاکہ خواتین ان کے ناموں کو مشعل راہ بنا تے ہوئے پاکستانی خواتین کے لیے بڑھ چڑھ کر کام انجام دے سکیں۔ کوکب اقبال نے کہا کہ کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کی خواتین ونگ بنانے کا مقصد معاشرے میں خواتین کو عزت کا مقام دلانے اور خواتین کے کاموں کو اجاگر کرنا ہے۔آجکل معاشی حالات کے پیش نظر صرف مرد گھر کا خرچہ پورا نہیں کر سکتا خصوصا آج کل کے حالات میں جبکہ مہنگائی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ہر اشیاء خوردونوش کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں ہمیں فخر ہے کہ اس موقع پر ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں اپنے گھر کو سپورٹ کرنے کے لیے خود آگے بڑھ کر کام کر رہی ہیں۔تاکہ گھر اور گھرانے کے اخراجات کو پورا کیا جا سکے انہوں نے کہا کہ ہماری خواتین بہترین صارف ہیں کیوں کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ سبزی والے گوشت والے فروٹ والے کپڑے والے جبکہ مختلف چیزوں کی خریداری کرتے وقت دوکاندار سے بھاؤ کرتی ہیں ۔ اسی طرح مختلف بچت بازاروں اور چھوٹے بڑے مال میں اکثریت خریداری خواتین کی ہوتی ہے۔کوکب اقبال نے کہا کہ بہت بڑے بڑے برانڈ اپنے اشتہارات کے ذریعے UPTO 90% کی سیل دکھاتے ہیں۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا یا تو وہ اسٹاک لاٹ بیچ رہے ہوتے ہیں یا پھر ٹھگ بن کر خواتین کو بیوقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔غلط اشتہارات کی تشہیر کے لیے قوانین سازی ہے۔جس پر مسابقتی کمیشن کو ایکشن لینا چاہیے انہوں نے کہا پاکستان کے چھوٹے بڑے شاپنگ سینٹر میں موجود ہر برانڈ کی دکانوں پر اکثر یہ بورڈ آویزاں ہوتا ہے کہ خریداہوا مال نہیں واپس ہو سکتا ہے اور نہ ہی تبدیل جبکہ پوری دنیا خصوصاً یو ایس اے اور یورپی ممالک سمیت خلیجی ریاستوں میں جہاں جہاں پر فروخت کے کاؤنٹر بنے ہیں وہاں ہی ریٹرن (واپسی) کے کاؤنٹر بھی ہوتے ہیں یہاں اس کے برعکس کام ہو رہا ہے ہر برانڈ نہ صرف اپنی اشیاء کی قیمتیں خود مقرر کر رہا ہے اس کا کتنا منافع ہے اس کا تعین کرنے والا ایسا کوئی محکمہ پاکستان میں موجود نظر نہیں آتا جب تک اشیاء فروخت کرنے والے کے منافع کا تعین نہیں ہوتا صارفین منافع خوروں کے ہاتھوں لٹتا رہے گا۔ کوکب اقبال نے کہا کہ کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کی کوششوں سے پورے ملک کے ہر صوبے میں کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ کا نفاذ ہو چکا ہے۔ جبکہ تین بڑے ادارے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی میں کنزیومر پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ قائم ہو چکے ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی سندھ فوڈ اتھارٹی کے پی کے فوڈ اتھارٹی اور ملکی سطح پر پاکستان حلال اتھارٹی بھی قائم ہو چکی ہے۔ جبکہ صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہر صوبے میں صارفین عدالتیں بھی کام کر رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صارف اپنے حقوق سے آشنا ہوں۔