ایکسٹینشن لینے کے فوراً بعد جنرل باجوہ نے 2020 کے شروع میں چند اینکرز کو بُلا کر بتایا کہ ایک مُلاقات کے دوران میں نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو ایک وڈیو دکھائی جس میں ایک خاتون ایک سفارتکار سے ایسی غیر اخلاقی حرکات کر رہی تھی جو عام حالات میں”ناقابل دید اور ناقابل داد “ ہیں۔
جنرل باجوہ نے ثاقب نثار کو بتایا کہ “دیکھیں ہمیں “قومی تحفظ“کے لئے اور دوسروں سے راز اُگلوانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں “۔ ثاقب نثار اس وڈیو میں خاتون کی
“قومی خدمت “کے لئے دی گئی “قُربانی “ کو دیکھ کر جنرل باجوہ کی اہلیت اور قابلیت سے بہت متاثر ہوئے۔
باجوہ اور ثاقب کے درمیان یہ گُفتگو غیر سنجیدگی، بے حسی اور اخلاقی گراوٹ کی انتہا تو ہے ہی، لیکن جب اس طرح کی گفتگو وقت کے چیف جسٹس جو بُنیادی حقوق اور آرمی چیف جو قوم کی جان، مال اور عزت کے مُحافظ ہوتے ہیں، کے درمیان ہو رہی ہو اور اس کا فخر یہ ذکر آرمی چیف بذات خود اینکرز کے سامنے کرے تو یہ کافی کرب ناک حقیقت بن جاتی ہے جس سے کسی بھی حساس انسان کا آنکھیں چُرانا مُمکن نہیں۔
جنرل باجوہ کے ساتھ اُس میٹنگ میں سینئر صحافی اور پاکستان کے پہلے ٹی وی اینکر سید طلعت حسین بھی موجود تھے، طلعت نے مُجھ سے بات کرتے ہوئے اس واقعہ کو کنفرم کیا اور طلعت نے اس کا ذکر اپنے ایک وی لاگ میں بھی کیا ہے۔
جنرل باجوہ نے جس “کارنامے “ کا ذکر کا، کیا یہ واحد واقعہ ہے یا ایک “سٹریٹجی”؟
اس طرح کی “قومی خدمت “ کے لئے جن خواتین سے “قُربانی” لی جاتی ہے وہ پاکستانی ہیں یا غیر مُلکی؟
اُن خواتین کا مُستقبل کیا ہے؟
کیا اس طرح کے گھناؤنے اور غلیظ منصوبوں کی ہمارے، آئین، قانون، کلچر، اخلاقیات اور مذہب میں گُنجائش ہے؟
آئیے ذرا اس بات کو کھول کر اِن سوالوں کے جواب ڈھونڈتے ہیں، تاکہ عوام کو بھی پتہ چلے یہاں ہمارے نام پر پاپڑ کیسے پیلے جاتے ہیں اور کیسے قوم کی معصوم بیٹیوں کا استحصال کر کے اُن کی زندگیاں تباہ کی جاتی ہیں۔
دن تھے گرمیوں کے اور سال 2014۔ عمران خان کے دھرنے کی آمد آمد تھی، میڈیا کی مُشکیں کسی جارہی تھیں۔
ایک مشہور ٹی وی چینل میں کام کرنے والی کرنٹ افئیرز کی 23 سالہ دلیر خاتون اینکر نے مُجھے طیش کے عالم میں فون کیا۔ اُس خاتون اینکر کا تعلق ایک ملٹری فیملی سے ہے اور اُن کے والد بھی فوج سے افسر کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے۔
خاتون اینکر کی آواز میں شدید غصہ اور پریشانی تھی۔ اُس نے کہا کہ وہ مُجھ سے کُچھ شئیر کرنا اور مشورہ لینا چاہتی ہے۔
فون کال پر اُس نے جو کُچھ بتایا وہ سُن کر مُجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ کوشش کرتا ہوں مُہذب الفاظ میں وہ سب یہاں لکھ سکوں۔
خاتون اینکر کا اپنی آفیشل صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے آئی ایس پی آر ، آئی ایس آئی اور فوج سے متعلقہ مُختلف آپریشنز اور پراجیکٹس پر دوسرے صحافیوں کے ساتھ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے مُختلف علاقوں میں پروگرام کے لئے آنا جانا بھی ہوتا رہتا تھا۔
اُن دنوں عمران خان کے بیانیے کو میڈیا اور مخصوص اینکرز کے ذریعے نشر عام کرنے، اُس کو صادق و امین اور مسیحا بنا کر پیش کرنے اور نواز شریف کو چور، ڈاکو، کرپٹ، غدار، توہین رسالت اور کافر جیسے الزامات کے ذریعے بدنام کرنے کی مُہم عروج پر تھی۔
پراجیکٹ عمران خان کے ڈائیریکٹرز اور پروڈیوسرز نے محسوس کیا کہ پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل میں کام کرنے والا ایک مرد اینکر و کالم نویس ڈکٹیٹ کی گئی لائن سے ہٹ کر عمران خان کے طرزِ سیاست اور پی ٹی آئی خیبر پختونخوا
حکومت کی کارکردگی پر “مُثبت رپورٹنگ” کی بجائے منفی تنقید کر رہا ہے۔ ساتھ ساتھ وہ عمران خان کے خُفیہ پُشت پناہوں پر تیر بھی برسا دیتا تھا۔
اُس تنقید کرنے والے مرد اینکر اور کالم نویس کو لائن پر لانے کا پلان فائنل ہوا اور آئی ایس آئی کے ایک افسر کو، جس کا کوڈ نام “ع” سے شروع ہوتا تھا، یہ “اہم” ٹاسک دیا گیا۔
خاتون اینکر کو کرنل “ع” نے ایک دن کہا کہ آپ جتنی قابل ہیں آپ اس مُلک کے لئے “اثاثہ” ثابت ہو سکتی ہیں اس لئے میں نے آپ کو “آفیشلی اپروچ” کیا ہے کہ آپ اپنے صحافیانہ کام کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے بھی کام کر یں۔ آپ کے لئے یہ ایک انتہائی بہترین موقع ہے کہ “قومی خدمت” کر کے اپنی صلاحیتیں منوائیں تو آپ نہ صرف ترقی کی مزید سیڑھیاں چڑھیں گی بلکہ پیسہ ساون بھادوں کی برسات کی طرح برسے گا۔
اثاثہ” بنانے کے لئے “قومی خدمت” یہ تھی کہ خاتون اینکر کو کہا گیا آپ اُس بڑے ٹی وی چینل کے مرد اینکر سے دوستی کریں، پھر اِس دوستی کو بڑھائیں، اتنا بڑھائیں کہ “ناقابل دید اور ناقابل داد” سٹیج تک پہنچ جائے جہاں پر ہم ایک ایسی نازیبا وڈیو بنا لیں جس کی بُنیاد پر ہم اُس مرد اینکر کو بلیک میل کر کے اُس کو اپنی دی گئی لائن پر چلا سکیں۔ گارنٹی دی گئی کہ اُس وڈیو میں آپ کا چہرہ بلکل بھی ظاہر نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی کو پتہ چلے گا کہ یہ آپ ہیں۔
خاتون اینکر نے کہا کہ: “کرنل “ع” نے مُجھے یہ بات اتنے کانفیڈنس اور بزنس لائک کہی کہ جیسے یہ کوئی بڑی بات ہی نہیں”۔
خاتون اینکر نے کہا کہ میں نے انکار کر دیا ہے، مُجھے شدید صدمہ اور غُصہ ہے اور میں نے اُسے بہت سخت باتیں کہی ہیں۔ میں نے کہا آپ نے بلکل ٹھیک کیا ہے، آپ پریشان نہ ہوں اللہ مدد کرے گا۔
کُچھ دنوں بعد اُس آفیسر نے (جو اب ریٹائر ہو چُکا ہے) اُس خاتون اینکر کو انتہائی ڈھٹائی سے یہی “آفیشل” آفر دوبارہ کی اور بحث کے دوران کہا کہ آپ کس مذہب اور اخلاقیات کی بات کر رہیں ہیں یہ سب کام تو سعودی عرب کی ایجینسیاں بھی ایسے ہی کرواتی ہیں اس لئے آپ مزید سوچ لیں، بہت اچھا موقع ہے اگر آپ نے ضائع کر دیا تو آپ کے لئے فیلڈ میں مُشکلات بڑھ جائیں گی۔
خاتون اینکر نے پھر انکار دیا۔ اور ساتھ ہی اُس مرد اینکر کو بتا دیا کہ آپ کے خلاف یہ پلان بن رہا ہے اور مُجھے اس کام کے لئے آفر کی گئی ہے۔
کرنل ع کی آفر دو بار ریجیکٹ کرنے کے کُچھ دنوں بعد عمران خان سے انٹرویو کے دوران اپنی صحافیانہ جبلت کے ہاتھوں مجبور اُس خاتون اینکر نے کُچھ ایسے سوالات پُوچھ لیے جنہوں نے ثاقب نثار کے “صادق و امین” کا موڈ خراب کر دیا اور اگلے ہی دن اُس خاتون اینکر کو ٹی وی چینل سے نکال دیا گیا۔
وہ خاتون اینکر بتول راجپوت ہے !
بتول راجپوت نے کہا کہ اگر آپ میرا نام ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو یہ فیصلہ آپ کا ہے۔ مُجھے آپ کے فیصلے پر اعتراض نہیں ہو گا۔ اس لئے میں نام اُن کی رضامندی سے ظاہر کر رہا ہوں کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ صحافت میں کام کرنے والی اور نئی آنے والی لڑکیوں کو یہ پیغام اور حوصلہ ملے کہ اگر آپ کی صحیح راستے پر چلنے کی نیت ہے تو کبھی کمزوری نہ دکھائیں، اپنے اصولوں پر ڈٹے رہیں، اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ آپ کی مدد کرے گا اور مُشکلات سے نکال دے گا۔
بتول راجپوت کہتی ہیں کہ وہ خود اپنے بارے میں یہ بات کسی کو نہیں بتانا چاہتی کیونکہ وہ سستی شُہرت نہیں چاہتی۔
مرد اینکر کا نام اس لئے ظاہر نہیں کیا کہ میرے پاس اُس کی اجازت نہیں ہے۔
مزید سُنئے ۔۔۔۔
اسلام آباد کے ایف 6/3 سیکٹر کی گلی نمبر 16 میں جہانگیر ترین کے گھر کے بلکل ساتھ ایک چار کنال کا سرکار کے ادارے کا گھر ہے۔ اس گھر کے اُوپر والے فلور پر آئی ایس آئی اسلام آباد ڈائریکٹریٹ کا ایک سابق انچارج کرنل اپنا “پرائیویٹ پراپرٹی آفس” بھی چلاتا رہا ہے۔
اس گھر کے گراؤنڈ فلور پر ایک سویلین مکروہ، جرائم پیشہ شخص ایجینسیوں کی مدد سے پچھلے 20 سال سے چھوٹے شہروں اور قصبوں سے تعلیم کی غرض سے اسلام آباد آنے والی معصوم، کم عمر لڑکیوں کو پھانسنے اور پھر بلیک میل کر کے، دھمکیاں دے کر اُن سے “ناقابل دید اور ناقابل داد” کاموں کا گندہ دھندہ چلاتا رہا-
آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کے سینئر افسران اکثر اوقات وہاں پائے جاتے تھے۔ وہ مکروہ شخص لڑکیوں کو نوکری یا یوٹیوب چینل پر پروگرام دینے کے بہانے پھانستا اور سینئر فوجی افسران کا نام اور شکل استعمال کر کے اُن لڑکیوں کو خوفزدہ کرتا ہے، پہلے سگریٹ، چرس اور شراب کے نشے پر لگاتا ہے پھر اُن کو مُختلف مردوں کے ساتھ نتھی کر کے دوستی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
معصوم لڑکیوں کو پھانسنے، نشے پر لگانے اور مکروہ کاموں پر مجبور کرنے کے لئے ربوہ کے منظور شُدہ قرآن اور غلط ترجمہ کے نُسخے استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ سب کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا اصل مذہب کیا ہے۔
پھر اُن لڑکیوں کی نشے کی حالت میں “ناقابل دید اور ناقابل داد” تصاویر اور خُفیہ وڈیوز بناتا ہے۔ تصاویری بلیک میلنگ کے ذریعے لڑکیوں کو مُختلف لوگوں کے ساتھ دوستی لگانے اور غیر اخلاقی کام کرنے پر مجبور کیا جاتا اور پھر اُن افراد کو بلیک میل کرنے کے لیے غیر اخلاقی تصاویر اور وڈیوز بنائی جاتی۔
اس شخص کو ایک فون سِم بھی دی گئی جس کا نمبر ظاہر نہیں ہوتا، جس سے کال کر کے وہ اس کالے دھندے اور بے غیرتی کے کام کی مزاحمت کرنے والی لڑکیوں کو بلیک میل کرتا کہ اس نمبر کے ذریعے اپنی شناخت چُھپا کر اُن کے گھر والوں کو تمام تصویریں، وڈیوز اور تفصیلات بھجوا دے گا۔
معصوم لڑکیاں جو اپنے مڈل کلاس گھروں سے دور سُہانے مُستقبل کے سپنے لے کر “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے دارلخلافہ “اسلام” آباد پڑھنے آتی ہیں اُن میں سے چند ایسی بلیک میلنگ کا مُقابلہ نہیں کر پاتیں اور مجبور ہو جاتی ہیں۔
وہ اس بُری طرح اس غلیظ اور مکروہ جال میں پھنستی ہیں کہ پھر کبھی نہیں نکل سکتیں اور نہ ہی اپنے ماں باپ، گھر والوں یا قانون سے مدد لے کر کُچھ کرسکتی ہیں۔ اس گھناؤنے جال میں پھنس کر اپنی معصومیت اور مُستقبل کو خراب کر کے اپنی پُر سکون زندگی کو جہنم بنا لیتی ہیں۔
اس جرائم پیشہ شخص کو انٹیلیجنس ایجینسیوں کے لوگ خود “آئی ایس آئی کا pimp” کہتے ہیں۔ اس کے ساتھی اُس کے اڈے کو “bastard’s dark den” کہتے تھے۔
ایک پراپرٹی ڈیلر کے دفتر میں چائے پیش کرنے والے چپڑاسی کے پاس چند ہی سالوں میں دولت کی اتنی ریل پیل کیسے ہوگئی؟
لمبی لمبی گاڑیاں کہاں سے آ گئیں؟
اس مکروہ شخص کو اس گھر کا قبضہ اسی طرح کے قبیح کاموں کے لئے کس نے دیا؟
یہ وہی گھر ہے جہاں 2014 کے دھرنے سے قبل اور دھرنے کے دوران آئی ایس آئی کے سینئر افسران جہانگیر ترین سے معاملات طے کرنے کے لئے آتے تھے اور جہانگیر ترین اپنے گھر کی پچھلی طرف سے اس گھر میں میڈیا کی نظروں میں آئے بغیر رازداری سے داخل ہو جاتا تھا۔
آرمی چیف جنرل حافظ عاصم مُنیر پر لازم ہے کہ اس مکروہ شخص کے بارے میں اسلام آباد ڈائریکٹریٹ میں متعین ماضی کے کسی بھی انٹیلیجنس افسر سے تصدیق کر لیں کہ وہ وہاں کن کے تعاون سے یہ کام کرتا اور اُوپر والی منزل کس سینئر انٹیلیجنس افسر کے استعمال میں رہی۔
چیف صاحب پاک فوج کا موٹو ہے “ جہاد فی سبیل اللہ” ، کیا اللہ کے نام پر اللہ کے لئے جہاد ایسے ہوتا ہے؟
کیا ہمارے دین میں ایسی جنگی سٹریٹجی کی کوئی مثال ہے؟
ہے تو بتائیے کون کونسے جہاد میں یہ “اعلی” حکمت عملی استعمال کی گئی؟
کیا کوئی پاکستانی باپ یا بھائی ، وردی میں ہو یا وردی کے بغیر، اپنی بیٹیوں یا بہنوں کو ایسی جنگی حکمت عملی کا حصہ بنانے کا سوچ بھی سکتا ہے؟
ہم سب بہنوں، بیٹیوں والے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا ہم برداشت کر سکتے ہیں کہ ہماری بہن یا بیٹی ایسے جال میں پھنسے؟
کسی قوم کے مُحافظوں کو خُود یا مُعاشرے کے گھٹیا ترین، ابلیسی، بدکردار، اور جرائم پیشہ ایجنٹوں کے ذریعے ایسا گھناؤنا کسب کروانا زیب دیتا ہے؟
اگر نہیں تو پھر مملکتِ خدادا پاکستان میں یہ گندہ دھندہ، جس کا فخریہ ذکر سابق آرمی چیف سابق چیف جسٹس کے ساتھ بیٹھ کر کرتا ہے اور پھر کئی اینکرز کے سامنے اس کا اعتراف بھی کرتا ہے، کیسے ہو رہا ہے؟
یہ سب کُچھ کس کی اجازت اور مرضی سے جاری ہے؟
کیا اس مکروہ “ڈاکٹرائن” کی منظوری اعلی ترین سطح پر دی گئی؟
کیا اس کا جواب اللہ کو دے پائیں گے؟
یا پھر قوم کی یہ بیٹیاں (جن کی حفاظت کا ذمہ ریاست پر ہے) اُن رزقِ خاک بننے والے عامیوں کی ہیں جن کی قسمت میں بڑی پوزیشن پر بیٹھے چھوٹے لوگوں کی بے حمیتی کا ایندھن بننا ہوتا ہے؟
چیف صاحب، فوج کے سپیشل انویسٹیگیٹشن یونٹ (SIB) سے تحقیقات کروائیں، اور اس طرح کے جتنے بھی مزید شیطانی اڈے اسلام آباد اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں ہیں اُن کو بند کروا کر قوم کی بیٹیوں کو ایسے مکروہ خرکاروں کے چُنگل سے آزاد کروائیں، ان بیٹیوں کو اپنی مرضی کی محفوظ زندگی گُزارنے کا حق دیں اور ایسے قابل نفرت کرداروں سے سرکاری گھر، گاڑیاں، حرام کی دولت اور مراعات واپس لے کر ان کو عبرت کا نشان بنا دیں۔
اگر ایسی کوئی ڈاکٹرائن سرکاری سطح پر سٹریٹجی کا حصہ ہے تو قوم کو بتایا جائے کہ کس عالمِ دین نے اس کے جائز ہونے کا فتوی دیاہے اور یہ کونسے قانون کے تحت کیا جا رہا ہے؟
قوم اور پاک فوج کے ہزاروں نوجوان بیٹے اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے سب سے بڑی قربانی اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر چُکے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ مزید ہزاروں زخمی ہوگئے یا عُمر بھر کے لئے معذور ہو گئے۔ اُن ہزاروں شہیدوں کی قُربانیوں کو مُعاشرے کے قبیح لوگ اور اُن کے سرپرست اداروں اور وردی کی آڑ لے کر اپنے گھناؤنے عمل سے پُوری پاک فوج کو بدنام کر رہے ہیں۔ ایسے عناصر کی سرکوبی ضروری ہے تاکہ فوج کے نام پر دھبہ لگانے والے اپنے انجام کو پہنچ سکیں۔
آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا فرض ہے کہ وہ اپنے اداروں کی اصلاح کریں، ایسے گندے اور گھٹیا لوگوں کی نشاندہی کر کے اُن کو قانون کے کٹہرے میں لائیں، اس گھناؤنے کام کو بند کروائیں تاکہ قوم کی بیٹیوں کو منظم طریقے سے جاری سرکاری سرپرستی والے غیر اخلاقی منظم جرائم سے بچایا جاسکے کیونکہ یہ قانون فطرت کے منافی ہے اور قوموں سے برکت ختم کر دی جاتی ہے۔
اس طرح کے گھناؤنے کام قوم کی نسلیں خراب کرتے ہیں اور اس کے اثرات ہم اب بھُگت رہے ہیں اور بھُگتیں گے۔ لہٰذا ایسے قابل نفرت عمل کو ختم کر کے بے ضمیر کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں تاکہ قوم کی بیٹیوں کو اپنے ہی وطن میں تحفظ ملے، وہ اپنی مرضی کی زندگی عزت سے گُزاریں اور فوج اور مُلک کی ساکھ کو جو نُقصان پہنچ رہا ہے اُس کا مداوا ہو سکے۔
سوچیں صاحب، اور اس بار صرف سوچیں ہی نہیں اپنے ادارے کی گندگی صاف کر گُزریں !