پچھلے دنوں جنرل باجاور ساتھ اُن کے صاحبزادے کو دُبئی میں مٹر گشت کرتےکرنے کے لیے ریڈ سگنل پر بغیر حفاظتی کمانڈوز کے انتظار کرتے دیکھ کر میرا کمزور دل تو ٹوٹ ہی گیا۔
کُچھ ہی ہفتوں پہلے ایک وقت تھا کہ وطنِ عزیز میں پاک فوج کے سپہ سالار کے گھر سے نکلنے سے کئی گھنٹے پہلے شاہراہیں بند کردی جاتی تھیں، جہاں سے شاہی سواری گُزرنا ہوتی فوجی کمانڈوز مشین گنیں اُٹھائے سڑکوں کے دونوں اطراف قطار اندر قطار ایسے ایستادہ کھڑے ہوتے کہ فاتح قلو پطرہ، مصر، یونان، فرانس، سپین، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم، ہالینڈ اور برطانیہ، رومن شہنشاہ جولیس سیزر بھی دیکھ لیتا تو بروٹس کے خنجر کے وار کی بجائے حسد کی آگ میں جل مرتا۔
مارچ 2020 میں میرا بیٹا، مُحّمد عُمر ابصار، اپنا پہلا کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے پنڈی سٹیڈیم کے سامنے مری روڈ پر اپنے کزنز کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ پہنچیں تو سب مل کر اکٹھے پی ایس ایل کا میچ دیکھنے سٹیڈیم میں داخل ہو سکیں۔ وہیں سے اُس نے فون پر اپنے کزنز کو اپنی لوکیشن بتائی کہ وہ کہاں کھڑا ہے تاکہ وہ اُس کو آسانی سے ڈھونڈ سکیں۔ یہ فون کال کرنا اُس کا جُرم ٹھہری کیونکہ اُسی دن سپہ سالار اعظم جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنے لاڈلے بچوں کے ساتھ میچ دیکھنے آنا تھا۔
ابھی فاتح کشمیر براستہ واشنگٹن صاحب بہادر کے گھر سے نکلنے میں دو گھٹے باقی تھے لیکن مری روڈ پر حفاظتی انتظامات ایسے مبالغہ آمیز کہ امریکی صدر بھی دیکھے تو دانتوں میں اُنگلی داب لے۔
مری روڈ پر چہار اطراف پاک فوج کے بہادر اور پنجاب پولیس کے گھبرو جوان ہزاروں کی تعداد میں سویلین کپڑوں اور یونیفارم میں ڈیوٹی پر موجود تھے۔ چھتوں پر خودکار رائفلوں کے ساتھ شارپ شُوٹرز کالے چشمے لگائے مشکوک افراد کو ڈھونڈ رہے تھے۔ سیکورٹی اداروں کی بم پرُوف گاڑیاں مُسلح فوجیوں کو بٹھائے مری روڈ پر زن زن کرتے ایسے گُزر رہی تھیں جیسے انڈیا نے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر حملہ کر دیا ہو۔
ان فرض شناس اہلکاروں نے جب ایک بیس سالہ لڑکے کو فون پر بات کرتے ہوئے دیکھا تو بھگدڑ مچ گئی۔ فوج اور پولیس کے چاک و چوبند جوانوں نے فوراً اُس کو گھیر لیا، اُس کے ہاتھ سے فون چھین لیا اور اُسے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے گئے۔
پوچھا کہ وہ کون ہے تو اُس نے اپنا نام بتایا اور مزید پوچھنے پر بتایا کہ وہ ابصار عالم کا بیٹا ہے۔
بس یہ سُننا تھا کہ پاک فوج اور پنجاب پولیس کے تقریباً 15/16 شیر جوان اُسے دھکے دیتے ایک بلڈنگ میں لے گئے، اندر لے جا کر وہ سب اُس نہتے لڑکے پر پَل پڑے۔
گھونسوں، تھپڑوں، لاتوں اور ٹھڈوں سے اُسے مارنا شروع کردیا۔ ساتھ اُس کا “جُرم” بتاتے رہے کہ ”تُمہیں پتا نہیں تھا آرمی چیف آرہے ہیں اور تُم نے یہاں کھڑے ہو کر فون پر بات کر کے سیکورٹی بریچ کردی ہے، بتاؤ اس وی آئی پی موومنٹ کی انفارمیشن کس کو دے رہے تھے۔“
اُس کمرے میں دھینگا مُشتی کے دوران ایک پولیس والے کو ہونٹ پر ذرا سی چوٹ آگئی جس کا الزام میرے بیٹے پر لگا دیا گیا۔ چُونکہ کشمیر پلیٹ میں رکھ کر مُودی کو دینے اور دلی کے لال قلعے پر جھنڈا نہ لگانے کا دُکھ ابھی کم نہیں ہوا تھا اس لیے عُمر کو اُٹھا کر پولیس گاڑی میں پھینکا گیا اور تھانہ نیو ٹاؤن شفٹ کر دیا گیا، وہاں لے جا کر اُس پر تشدد کا دوسرا راؤنڈ شروع ہوا اور پھر کار سرکار میں مُداخلت اور سرکاری مُلازم پر حملہ کرنے کے الزام میں پرچہ کاٹ کر اُُسے عادی اور نشئی مُلزمان کے ساتھ سیل میں بند کر دیا گیا۔
اکیسویں صدی میں پیدا اور بڑے ہونے والے میرے “گُستاخ” بیٹے کو پتا نہیں تھا کہ وہ باجوہ ڈاکٹر ائن کی تخلیق کردہ اُس عمرانی ریاستِ مدینہ کے ٹیکس پئیر کا بیٹا ہے جہاں سرکاری نوکر بادشاہ ہوتا ہے اور وطن کے مالک عوام اُس بادشاہ کے غُلام۔ اور اپنے ہی مُلازموں کے غُلام عوام پر لازم ہے کہ بادشاہ سلامت کی سواری گُزرنے سے کئی گھنٹے قبل ہی اپنی عزت اور جان بچانے کی خاطر ایسی جگہوں سے میلوں دور رہیں جہاں سے ظلِ الٰہی کا قافلہ گُزرنا ہے۔
رات دیر گئے عُمر واپس گھر پہنچا تو جس بیٹے کو ہمیشہ قانون پر عمل کرنے اور سیدھے راستے پر چلنے کی تربیت دی تھی، جب وہ میرے بازوؤں میں تڑپ کر رویا تو میرے پاس اُس کی بھیگی اور اُداس آنکھوں میں کُلبلاتے کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا۔
اُس رات سے میرے اکلوتے بیٹے کے نفسیاتی مسائل شروع ہوئے جن کا علاج اور تھیراپی آج تیسرے سال بھی جاری ہے۔ پُورے خاندان نے جو پریشانی اُٹھائی وہ ایک طرف لیکن اُس کا ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا اور آج بھی وہ اپنے ٹراما سے نکلنے کی مُسلسل کوشش کر رہا ہے۔
یہ واقعہ صرف میرے بیٹے کا نہیں. اس مُلک کے ہزاروں بیٹوں کو اپنے بچے باہر سیٹل کروانے والے جعلی سیزروں کی محدود دماغی سوچ کی بھینٹ مُختلف اندرونی و بیرونی ایڈونچرز میں یا تو قُربان کروا دیا گیا جیسے کارگل، جہاں سے شہیدوں کے جسدِ خاکی لینے سے بھی انکار کیا گیا، یا پھر اُن کو پہلے مُجاہد اور پھر دہشت گرد بنا کر ڈالرز کے لیے مُسلط کی گئی پرائی جنگوں کا ایندھن بنا دیا گیا۔
قوم کے ہزاروں بلوچ، پختون، سندھی، مہاجر، کشمیری اور پنجابی بیٹے اس لیے غائب کر دئیے گئے کہ وہ اس وطن پر اپنا حق جتلاتے ہیں، اور یہیں رہ کر اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں۔ لیکن اُن کو اُٹھانے والے، تشدد کرنے والے ترقیاں پاتے، ارب پتی بن کر ریٹائر ہوتے اور اہل و عیال کے ہمراہ بیرون مُلک چلے جاتے ہیں۔
لیکن یہ رعایا بھی اتنی ڈھیٹ ہے کہ پھر بھی یہ خُود اور اُن کے بچے یہیں رہنا، جینا اور مرنا چاہتے ہیں،
کیونکہ جنرل باجوہ صاحب یہ سب لوگ اپنے وطن سے بے لوث خلوص اور بے غرض مُحبت کرنے والے ہیں، یہ مُنافق نہیں ہیں، اِن کے بچے آپ جیسے نوکری پیشہ کے بچے ہونے کے باوجود پیدائشی ارب پتی نہیں ہوتے. یہ لوگ حلال مواقع ہونے کے باوجود آپ کی طرح اپنے بچوں کو یہاں کے جہنم سے نکال کر ترقی یافتہ مغربی ممالک میں سیٹل نہیں کرواتے۔
یہ اپنے ہی وطن کے مفادات کی جڑیں کاٹ کر، لوگوں کو غربت، مہنگائی اور اپنی جاہلانہ، ہوس سے بھری، ذاتی مفاد پر مبنی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھا کر، تنخواہ دار ہونے کے باوجود شہنشاہوں کی زندگی نہیں گُزارتے بلکہ یہ اپنے وطن کو خوش، خوشحال، عزت دار، ترقی یافتہ بنانا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اسی بوسیدہ نظام کے جہنم میں رہ کر اپنی بساط سے بڑھ کر نسل در نسل اپنی مُشقت جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اِن کا خمیر اس دھرتی کی بساندی مٹی سے اُٹھا ہے نہ کہ امریکی ڈالر یا برطانوی پاؤنڈ کے نئے کرنسی نوٹوں کی خوشبو سے۔
جنرل قمر باجوہ، میرے اور قوم کے بیٹوں اور آپ کے بیٹوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے بچے بدقسمت ہیں کیونکہ وہ اُن والدین کی اولاد ہیں جو ہمیشہ ایمانداری سے اپنا رزق حلال اسی وطن میں کماتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، اپنے بچوں کو وطن سے مُحبت سکھاتے ہیں، یہیں گھر بناتے اور کاروبار کرتے ہیں، حرام کا اربوں روپیہ لوٹ کر، زمینوں پر قبضے کر کے، ہر ہاؤسنگ سوسائیٹی میں خاندان کے ہر فرد کے نام پر بھتے میں پلاٹ اور محل نُما گھر ہتھیا کر اپنے اور اپنی سات نسلوں کے لیے جائیدادیں نہیں بناتے۔
اس مُلک کے مالک شہری وہ بدقسمت رعایا ہیں جو اپنے بچوں کو تمام عمر رزقِ حلال کما کر پالتے ہیں، بغیر کسی انصاف، آزادی، تحفظ، عزت اور بُنیادی حقوق کے بدلے یہ رعایا اپنے بچوں کا رزق کاٹ کر تمام عمر سینکڑوں قسم کے ٹیکس ادا کرتے ہیں تا کہ ججوں، جرنیلوں اور اشرافیہ کا نہ بھرنے والا بھوکا پیٹ بھر سکیں،
ان ٹیکس کے پیسوں سے جنرل باجوہ جیسے سرکاری نوکر نہ صرف سرکاری گاڑی میں سرکاری پٹرول ڈلوا کر سرکار کے خرچ پر سرکار کی سیکورٹی لگوا کر میچ دیکھنے آتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بیرون مُلک تعلیم دلوا کر وہیں سیٹل بھی کرواتے ہیں اور اگر رعایا کا کوئی فرد اس پر سوال اُٹھائے تو اُسے ہی اُٹھا لیا جاتا ہے۔
وطن عزیز میں کئی سال مُفتے کا کروفر انجوائے کرنے کے بعد جنرل باجوہ کو اس طرح جرنیلی ٹھاٹھ باٹھ کے بغیر، بے نیل و مرام دُبئی کی سڑکوں پر اپنے بیٹے کے ساتھ پیدل جُوتے چٹخاتے دیکھ کر مُسرت نہیں حسرت ہوئی ۔۔۔ کہ کاش ہمارے وطن کی بھی اتنی قسمت ہوتی جہاں پر آپ جیسے گھر کے ببر شیر اور مُحلے کے خرگوش کراچی، کوئٹہ، کشمیر، پشاور، لاہور کی سڑکوں، چوراہوں اور اسلام آباد کی مار گِلہ روڈ پر آئین، قانون کی حُرمت کرتے ریڈ سگنل پر اپنی درجنوں بمب اور بُلٹ پروف گاڑیوں میں ریڈ سگنل کا احترام کرتے دکھائی دیتے۔
اُس آئین کی جس کی عزت اور حفاظت کرنے کا حلف اُٹھانے کے بعد ہی یہ رعایا آپ کو بندوق خرید کر دیتی ہے تاکہ آپ اُس بندوق سے ہمارے بچوں کی حفاظت کریں، نہ کہ اُسی بندوق کے زور پر ہمارے بیٹوں کو اغوا کریں، تشدد کریں، گولی ماریں یا اُن کی تشدد زدہ لاش کو ویرانے میں پھینک دیں۔
اور خُود کئی سال اس مُلک کو لُوٹنے کھسوٹنے، اور تباہ کرنے سے فارغ ہو کر ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی دولت سمیٹیں، لگژری چارٹرڈ طیارے میں اُڑتے ہوئے کسی محفوظ، ماڈرن اور خوبصورت شہر میں لینڈ کرجائیں، اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھیں اور آخری دن ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے چلنے والے بے انصاف نظام کے مُنہ پر کالک اور گارڈ آف آنر کا طمانچہ رسید کرکے میرے پاک وطن کے جھنڈے میں دفن ہونے کے لیے ایک لکڑی کے بکسے میں واپس آجائیں۔
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں،مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر، کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا