ایک کہانی جو بہت سننے کو مل رہی ہے کہ امریکی ادارہ ’’ہارپ‘‘ کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں زلزلہ پیدا کر سکتا ہے ۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے بارشیں بھی کروائی جا سکتی ہیں اور سیلاب بھی لائے جاسکتے ہیں۔ ایسی بہت سی کہانیاں آج کل بھی ترکیہ میں آنے والے زلزلے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہ مانتی ہے کہ ترکیہ کا زلزلہ بھی ’’ہارپ‘‘ کا کارنامہ ہے جبکہ سائنسدان اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق زلزلہ خالصتاً قدرتی عمل ہے، ماحول دشمن انسانی حرکات کی وجہ سے زلزلہ آ تو سکتا ہے لیکن انسان اپنی مرضی سے زلزلے کنٹرول نہیں کر سکتا۔
1993ء کو امریکی ریاست الاسکا میں امریکی بحریہ، فضائیہ اور ’’ڈارپا‘‘ نامی ایجنسی نے ’’ہارپ‘‘ (ہائی فریکوئنسی ایکٹیو ایرورل ریسرچ پروگرام) کی بنیاد رکھی۔ اس پروگرام کی بنیاد کے ساتھ ہی دنیا بھر میں اس کی مخالفت کا بھی آغاز ہوگیا اور یہ کہا جانے لگا کہ اس طرح کا پروجیکٹ انسانیت کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ 2014ء میں ’’ہارپ‘‘ کو الاسکا یونیورسٹی کے سپرد کرتے ہوئے اسے ’’نان کلاسیفائیڈ پراجیکٹ‘‘ کا درجہ دے دیا گیا۔
’’ہارپ‘‘ ٹیکنالوجی کا مقصد
’’ہارپ‘‘ ٹیکنالوجی کا مقصد دنیا کے ماحول کی تہہ کو گرم کرنا ہے۔ اس تہہ کو ’’آئینوسفیئر‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ زمین اور خلاء کے درمیان میں موجود ہے۔ ’’ہارپ‘‘کی بنیاد اس تہہ پر تحقیق کرنے کیلئے رکھی گئی تھی۔ اس میں فوجی ادارے بھی شامل کئے گئے تھے تاکہ ’’آئینوسفیئر‘‘ میں ریڈیو فریکوئنسی کا مشاہدہ کرنے کے بعد فوج کو ایک بہترین کمیونی کیشن سسٹم فراہم کیا جا سکے۔ ماہرین یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اگر ’’آئینو سفیئر‘‘ کی ساخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس سے ’’ویری لو فریکوئنسی‘‘ اور ’’ایکسٹریم لو فریکوئنسی‘‘پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ’’آئینو سفیئر‘‘ میں تبدیلی کی جائے تو ’’ایکسٹریم لو فریکوئنسی‘‘ جو 3Hz سے شروع ہوتی ہے وہ ریڈیو فریکوئنسی اور ملٹری کمیونی کیشن کیلئے کس طرح استعمال ہو سکے گی۔
اگر زمین سے 60 کلومیٹر اوپر کی جانب سفر کیا جائے تو ’’آئینو سفیئر‘‘ شروع ہو جاتی ہے اور ایک ہزار کلومیٹر تک موجود رہتی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ’’ہارپ‘‘ ٹیکنالوجی اپنے آپریشنز سر انجام دے رہی ہے۔ ’’آئینو سفیئر‘‘ ایک فلٹر کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔ اگر زمین سے کسی قسم کا ریڈیو سگنل اس کی جانب بھیجا جائے تو اس میں سے کچھ زمین کی طر ف واپس لوٹ آتے ہیں جبکہ کچھ اس میں سے گزرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اسی ٹیکنالوجی پر ریڈیو بھی کام کرتا ہے، ریڈیو کی فریکوئنسی زمین کے ایک حصے سے ’’آئینو سفیئر‘‘ سے ٹکراتی ہے اور کسی دوسرے حصے میں موصول کی جاتی ہے۔ جیسے جیسے فریکوئنسی بڑھ کر VLF Band میں داخل ہوتی ہے وہ 100MHzسے اوپر جانے پر ’’آئینو سفیئر‘‘ سے باہر نکل جاتی ہے۔ اسی فریکوئنسی بینڈ کی مدد سے خلا میں موجود سیٹلائٹ سے رابطہ کیا جاتا ہے۔
’’ہارپ‘‘ بھی کچھ ایسا ہی کام کر رہا ہے۔ اس کی مدد سے ’’آئینو سفیئر‘‘ کے کچھ حصوں کو 3.6MW کی توانائی سے گرم کیا جاتا ہے۔ یہ توانائی ’’ہارپ‘‘ کے اینٹینوں کی مدد سے ’’آئینو سفیئر‘‘ تک پہنچائی جاتی ہے۔ گرم کرنے کیلئے جو فریکوئنسی استعمال کی جاتی ہے وہ HF Band میں آتی ہے اور اس کی رینج 2.8 سے 10MHzکے درمیان ہے۔ اس مقصد کیلئے ’’ہارپ‘‘ کی سائٹ 40 ایکٹر کے رقبے پر 180 انٹینے لگائے گئے ہیں۔ ان انٹینوں کو ’’ہائی پاور ہائی انرجی فیسڈ ایرے انٹینا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’آئینو سفیئر‘‘ کے جس حصے کو گرم کیا جاتا ہے۔ جو فریکوئنسی زمین سے اس کی جانب بھیجی جاتی ہے اسے میگنیفائی کرنے کے بعد زمین کے جانب واپس بھیج دیتا ہے۔
اس سے یہ فائدہ حاصل کیا جاتا ہے کہ اگر فوج کسی دور دراز علاقے میں ہے اور اس سے رابطہ نہیں ہو رہا تو ’’آئینو سفیئر‘‘ کے اس حصے کو گرم کر کے لینز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے موثر کمیونی کیشن کی جا سکتی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ کہ اگر کسی ایسے علاقے میں دشمن کی فوج موجود ہے جہاں تک رسائی ممکن نہیں تو یہی طریقہ استعمال کرتے ہوئے ’’ہائی فریکوئنسی‘‘ کی مدد سے دشمن کے کمیونی کیشن سسٹم کو فیل کیا جا سکتا ہے۔
’’ ہارپ ‘‘ مخالف تھیوری
1985ء میں ڈاکٹر برنارڈ جو الاسکا کی ایک کمپنی ’’آرکو‘‘ میں ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ ایم آئی ٹی کے پروفیسر بھی تھے نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا کہ کس طرح ’’آئینو سفیئر‘‘ کو گرم کر کے کمیونی کیشن کیلئے استعمال کی جا سکتا ہے۔ یہاں تک ڈاکٹر برنارڈ اور ہارپ کے خیالات ایک جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں لیکن اس تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر برنارڈ نے یہ بھی بتایا تھا کہ ’’آئنوسفیئر‘‘ اور ریڈیو فریکوئنسی کا استعمال کرتے ہوئے موسموں کے ساتھ بھی چھڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے دنیا کے کسی بھی حصے کا درجہ حرارت کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر برنارڈ نے یہ بھی تحریر کیا کہ چونکہ انسان کا دماغ بھی ریڈیو فریکوئنسی پر کام کرتا ہے اس لئے فریکوئنسی کی مدد سے دنیا کے کسی بھی علاقے کے لوگوں کے دماغ کے ساتھ بھی کھیلا جا سکتا ہے، جسے ’’مائینڈ کنٹرول‘‘ کہا جا تا ہے۔
ہارپ آج اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے جس کا ذکر ڈاکٹر برنارڈ نے 1985ء میں کیا تھا لیکن انہوں نے بھی اپنے مقالے میں کہیں بھی مصنوعی زلزلوں کا ذکر نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ’’ہارپ‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعی زلزلے پیدا کرنا یا انہیں کنٹرول کرنا ایک مفروضے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔