کراچی(نمائندہ خصوصی) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری کے دوران ملک کا مجموعی قرض 40 کھرب روپے یا تقریباً 7اعشاریہ7 فیصد بڑھ کر 550 کھرب روپے کے قریب پہنچ گیا رپورٹ کے مطابق جنوری 2022 میں یہ اعداد و شمار 423 کھرب 90 ارب روپے تھے، جس کا مطلب ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔دریں اثنا جنوری کے آخر تک ملکی قرضہ بڑھ کر 343 کھرب روپے تک پہنچ گیا، جوکہ ایک ماہ قبل کے مقابلے میں 3.4 فیصد اور ایک سال پہلے کے اعداد و شمار سے تقریباً 25 فیصد زیادہ ہے، بیرونی قرضے ایک ماہ میں 15.7 فیصد اور ایک سال میں 38 فیصد اضافے کے ساتھ 206 کھرب 90 ارب روپے ہوگئے۔اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ (جولائی سے جنوری) کے دوران ملکی قرضوں میں 32 کھرب 18 روپے کا اضافہ ہوا جو کہ 10.4 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کے ذریعے حکومت کا قرضہ جنوری کے آخر تک 209 کھرب روپے تک پہنچ گیا جوکہ گزشتہ برس 155 کھرب 90 ارب روپے تھا، یہ 34 فیصد کا ریکارڈاضافہ ظاہر کرتا ہے۔طویل مدتی قرضوں پر حکومت پہلے بہت زیادہ خرچ کر چکی ہے، جس سے ترقیاتی اخراجات کا بڑا حصہ ختم ہو گیا ہے پاکستان کا سود اور آمدنی کا تناسب خطے میں سب سے خراب ہے (سری لنکا سے نیچے ہے) جو 42 فیصد سے بڑھ کر 54 فیصد تک ہو سکتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ سود کی ادائیگی 40 کھرب سے بڑھ کر 54 کھرب تک ہو جائے گی. اسٹیٹ بینک کی پالیسی شرح سود میں 300 بیسز پوائنٹس کا حالیہ اضافہ حکومت کے ترقیاتی اخراجات اور دیگر بنیادی ضروریات پر خرچ کرنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرے گا حکومت کے بیرونی قرضوں میں جنوری 2023 کے دوران بہت زیادہ تیزی کے ساتھ لگ بھگ 38 فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کے دوران جنوری تک بیرونی قرضوں میں 23.5 فیصد یا 393 کھرب 90 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے اور آئندہ ماہ اس میں نمایاں اضافہ ہوگا حکومت نے گزشتہ ڈالر کے ریٹ پر کیپ ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد ڈالر کی قیمت میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوگیا، اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اس اضافی رقم کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حکومت کے مجموعی قرضوں (بشمول ملکی اور بیرونی قرضوں) میں جولائی تا جنوری کے دوران 15 فیصد (71 کھرب 58 ارب روپے) کا اضافہ ہوا ہے۔