لندن(نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ کی واحد خاتون جج جسٹس عائشہ اے ملک نے اپنی تعیناتی سے جڑے تنازع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ میں تعیناتی کے لیے سنیارٹی کا اصول لازمی نہیں ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان ڈویلپمنٹ سوسائٹی کی جانب سے لندن سکول آف اکنامکس (ایل ایس ای) میں منعقدہ فیوچر آف پاکستان کانفرنس کے سیشن میں سپریم کورٹ کی جج نے اپنے کیرئیر میں درپیش چیلنجز اور مواقع کے بارے میں سامعین کو آگاہ کیا، جن میں سے بیشتر خواتین قانون کی طالبہ تھیں۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے بہت سے چیلنجز کا سامنا رہا، میں جس لا فرم میں میں کام کرتی تھی وہاں میں واحد خاتون ایسوسی ایٹ تھی اور پھر واحد خاتون پارٹنر بنی، بعد ازاں میں لاہور ہائی کورٹ میں ڈیڑھ سال تک واحد خاتون جج رہی، اب میں سپریم کورٹ میں واحد خاتون جج ہوں۔جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ مردوں سے بھرے ہال کا تصور کریں، جہاں صرف ایک خاتون موجود ہو، یہ وہ احساس ہے جسے آپ محسوس کرتے ہیں، عدالت میں خواتین کے باتھ رومز ڈھونڈنے سے لے کر لوگوں کے آپ کے ساتھ رویے تک متعدد چیلنجز ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس تمام سفر میں، میں خوش قسمت رہی ہوں لیکن ضلعی عدلیہ کی بہت سی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے سخت زندگی گزاری ہے اور وہ مختلف پس منظر سے آئی ہیں، انہیں جس بھیڑ کا سامنا ہوتا ہے وہ ہرگز آسان نہیں ہوتا، ان خواتین کی تعداد بہت کم ہے اور وہ جس کمرہ عدالت میں کام کرتی ہیں وہ خواتین کے لیے نہیں بنائے گئے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ان کا سفر اپنے کام میں خواتین کا نقطہ نظر شامل کرنا رہا ہے، ان کے بقول عدلیہ میں یہ نقطہ نظر مکمل طور پر غائب ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک خاتون کی حیثیت سے مجھے زیادہ محنت کرنی پڑی اور یہ دکھانے کےلئے اپنی پوری کوشش کرنی پڑی کہ میں اہل ہوں تاکہ لوگوں کو مجھ پر اعتماد اور بھروسہ ہو۔