کراچی( کامرس رپورٹر )
ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد کی درخواست پر شوریٰ ہمدرد کراچی کا ماہانہ اجلاس گزشتہ روز اسپیکر شوریٰ جسٹس(ر) حاذق الخیری کی زیر صدارت ’’سیاست پاکستان میںزوال اخلاق‘‘ کے موضوع پر ہمدرد کارپوریٹ ہیڈ آفس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سابق سفارت کار اور مصنف جمیل احمد خان کو بہ طور مہمان مقرر مدعو کیا گیا۔
اجلاس کے آغاز میں شوریٰ اراکین نے سابق صدر مملکت جنرل (ر)پرویز مشرف ،معروف کاروباری بیرام ڈی آواری، ممتاز شاعر و ادیب امجد اسلام امجد اور مشہور اینکر و فنکار ضیا محی الدین کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے مرحومین کی قومی خدمات پر اُنہیں خراج تحسین پیش کیا ۔
جسٹس(ر) حاذق الخیری نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ شوریٰ ہمدرد پہلے شام ہمدرد کہلاتی تھی۔ اسے ایک عظیم قومی مدبر و سماجی راہنما شہید پاکستان حکیم محمد سعید نے ۱۹۶۱ء میں مارشل لاء کے زمانے میں قائم کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اظہار رائے پر قدغن تھا۔ ایسے وقت میں شہید حکیم محمد سعید نے قوم کے دانشوروں، مدبرین و مفکرین کو شام ہمدرد کی شکل میں ایسا منفرد پلیٹ فارم دیا جہاں سے وہ قوم کی راہنمائی کرسکیں۔
مہمان مقرر جمیل احمد خان نے کہا کہ مسلسل سیاسی عدم استحکام اورشعبہ تعلیم کی زبوں حالی کی وجہ سے بدقسمتی سے بحیثیت ِمجموعی ایسا معاشرہ تشکیل نہ پاسکا اور نہ ہی ایسا ماحول بن سکا جہاں اخلاقی قدروں کی حفاظت کی پاسداری کا اہم فریضہ بجالایا جاتا۔ایوب خان کے دور میں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر جس طرح محترمہ فاطمہ جناح جیسی قدآور شخصیت کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی گئی ، اس کی وجہ سے ملک میں سیاسی بے ہودہ کلچر کا آغاز ہوا۔ آج یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اخلاقی بگاڑ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہوچکا ہے۔ معاملہ خواہ وعبادات کا ہو یا معاملات کا، حقوق و فرائض ہوں یا تعلیم و تربیت، لین دین ہو ، عدل، ایفائے عہد اور فرض شناسی جیسی دیگر کئی اعلیٰ اقدارکا اب ہمارے سماج میں فقدان ہے۔ لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اور اپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ تاہم اس معاملے کو قطعی برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ لہٰذا اب عملی اقدامات کرکے پہلے سیاست میں اخلاقیات ازسر نو متعارف کروانا ہوں گی۔ میڈیا کو بھی ضابطہ اخلاق کا پابند بنانا ہوگا۔ گلی محلوں میں سیاست دانوں کے رویوں کا عکس نظر آتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان نے کہا کہ شہید حکیم محمد سعید کی فکر و فلسفے کے مطابق شعور کی بیداری، عقل و فہم میں اضافہ، اخلاقیات میں بہتری اور عملی صلاحیتوں میں مہارت محض تعلیم کے بغیر ممکن نہیں، ان تمام کے لیے تربیت بھی لازمی ہے۔ بلکہ آج کے جدید دور میں توتربیت کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ انسان کی پہلی تربیت گاہ اُس کے گھر کا ماحول ہے، جس کے بعد درس گاہ اور پھر آخر میں پورا معاشرہ۔ گھروں میں اخلاقیات کا درس انفرادی عمل ہے جس پر لوگ عمل بھی کرلیتے ہیں۔ اصل چیلنج درس گاہوں میں ایسے مثالی اساتذہ دینا ہیںجو نئی نسل کے لیے رول ماڈل بننے کی پوری صلاحیت رکھتے ہوں۔ سیاست دانوں کے لیے سیاسی جماعتوں کو قانوناً پابند بنانا ہوگا کہ وہ اپنی پارٹی کے کارکنان کو بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے سے باز رکھیں۔
خالدہ غوث نے کہا کہ سیاسی نظام میں بار بار رخنہ ڈالنے سے قوم کی سیاسی تربیت کا عمل رُک گیا۔اب یہ حال ہے کہ گالیاں دینا تو کوئی معیوب عمل ہی سمجھا نہیں جاتا۔ سوشل میڈیا پر سیاست دانوں کی اخلاق سے گری باتیں دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اپنی آنے والی نسل کو ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
انوارالحق صدیقی نے کہا کہ سماج میں سچ، باہمی اعتماد و بھروسے اور تحمل و برداشت کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک کے ٹریفک کے نظام کو درست کیا جائے تاکہ لوگوں میں نظم و ضبط پیدا ہو۔ یہ اخلاقی عمل کی ابتداء ہوگی۔ علاوہ ازیں سیاسی جماعتوں کو عوام الناس کو باور کروانا چاہیے کہ قومی مسائل پر اجتماعی حکمت عملی ودانش درکار ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے اخلاقیات پر مبنی کوئی کوڈ اوف کنڈکٹ بھی ہونا چاہیے جس کے تحت ذاتیات پر تنقید کی ہرگز اجازت نہ ہو اور تنقید اور تضحیک میں فرق رکھا جانا چاہیے۔
ابن الحسن رضوی نے کہا جب تک سیاسی جماعتوں پرسول سوسائٹی کا دبائو نہیں ہوگا ہمارا سیاسی کلچر درست نہیں ہوگا۔ مجموعی طور پر ہمارے کلچر میں کسی کی تضحیک کرنا، خاص طور پر عورتوں کے حوالے سے ہر قسم کی گمراہ کن باتیں کرنا ہماری نئی نسل کا شیوا بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا ہماری اخلاقی زبوں حالی کی کھلی تصویر ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر امجد جعفری نے کہا کہ ہم سب اس سماجی خرابیوں میں برابر کے شریک ہیں۔ اسلامی معاشرے میں بداخلاقیات کا تو کوئی تصور ہونا ہی نہیں چاہیے۔ سعید صدیقی،سابق گورنرسندھ جنرل(ر) معین الدین حیدر، کرنل(ر)مختار احمد بٹ اورپروفیسر اخلاق احمد سمیت دیگر اراکین نے بھی موضوع پر اظہار خیال کیا۔