آج سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالی جائے تو فیس بک، ٹوٸٹر، ٹک ٹاک، اور یو ٹیوب پر نہ جانے کیا کیا خرافات ٹاپ ٹرینڈ میں دکھاٸی دیتی ہیں جو ہمارے معاشرے کی اس وقت کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتی نظر آ رہی ہیں۔
یقین جانیں افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ جنہیں ہمارا قومی ہیرو ہونا چاہیے تھا اُنہیں کوٸی پوچھنے والا نہیں اور جن کی کوٸی اوقات نہیں وہ ٹاپ ٹرینڈ میں چل رہے ہیں۔
ہم بھی عجیب قوم ہیں۔ ہمارے یہاں حقیقی ہیروز کو اس وقت یاد کیا جاتا ہے اور ان کی قدر کی جاتی ہے جب وہ مر جاتے ہیں۔ اب جیسے ہی ان کے مرنے کی خبر آتی ہے لوگ ان کی شان میں قصیدے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب کہ اگر انہیں ان کی زندگی میں سراہا جائے تو نہ صرف ان کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ دوسروں میں بھی انہیں دیکھ کر ویسا بننے اور خدمت خلق کرنے کا جذبہ جاگے گا۔
یہاں بات ہو رہی ہے اپنی مدھر آواز سے ہم سب کے دلوں میں بسنے والی حدیقہ کیانی کی جنہوں نے بلوچستان کے سیلاب متاثرین کے لیے سو گھر، گروسری اسٹور، مسجد اور میٹرنٹی ہوم تعمیر کر کے اُن متاثرین کے حوالے کر دیے ہیں اور اس کے بعد وہ رکی نہیں ہیں بلکہ اب مزید دو سو گھروں کی تعمیر کا اعلان کیا ہے۔ یقین جانیے یہ سن کر دل خوش ہو گیا کہ ابھی بھی ایسے دردمند دل رکھنے والے لوگ اور حساس فنکار زندہ ہیں جو خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر ایسے پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں جن سے غریب عوام کو فائدہ پہنچے۔ جب حدیقہ نے یہ کام شروع کیا تو شاید خود حدیقہ کیانی کو بھی علم نہ ہو گا کہ وہ یہ سب کیسے کریں گی مگر ایک جذبہ ایمانی تھا کچھ کرنے کا، آگے بڑھنے کا اور پھر انہوں نے صرف زبانی کلامی دعوے نہیں کیے بلکہ یہ سب کر کے دکھایا۔ ان کے خلوص اور لگن کو دیکھ کر پھر ان کے ساتھ لوگ شامل ہوتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
گزشتہ سال سیلاب نے سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں شدید تباہی پھیلاٸی۔ پسماندہ علاقوں میں انفراسٹرکچر تو بالکل تباہ ہو گیا تھا اور لوگ سڑکوں پر آ گئے تھے۔ ان متاثرین کے گھروں کی تعمیر کے یہ سب کام گو حکومت کے کرنے کے تھے مگر کچھ ہماری حکومت کی نااہلی اور کچھ نقصان بھی ہم سب کی سوچ سے زیادہ تھا۔ ایسے میں حساس دل رکھنے والے لوگ ہی سامنے آئے اور اپنی مدد آپ کے تحت بحالی کا کام شروع کیا۔ جو قابل ستائش ہے۔ حدیقہ کیانی بھی ان میں سے ایک ہیں۔
واضح رہے کہ حدیقہ کیانی نے 2005 کے زلزلے میں بھی آگے بڑھ کر بحالی کے کاموں میں نہ صرف بھرپور حصہ لیا تھا بلکہ زلزلے سے محض چار دن پہلے پیدا ہونے والے بچے کو بھی گود لیا تھا۔۔۔وہ بچہ آج 16 سال کا خوبرو جوان ہے جو بہترین تربیت و پرورش کے بعد آج ہمارے اس معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
اب ایسا دردمند دل رکھنے والی پاکستانی فنکارہ کی جتنی بھی تعریف کی جاۓ وہ کم ہے۔ چلیں ہم کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم سوشل میڈیا پر ان کے اس مشن کو آگے بڑھا کر ان کو سپورٹ تو کرسکتے ہیں۔ تاکہ جن کے پاس وسائل ہیں مگر پلیٹ فارم نہیں انہیں راستہ دکھے۔ کہ جنہیں رب نے نوازا ہے وہ اس کی خلق میں خیر بانٹیں۔ تو چلیں چراغ سے چراغ جلاتے ہیں۔
پیاری حدیقہ کیانی! ہمیں آپ پر فخر ہے