مشہور اور تجربہ کار اینکر کامران خان نے نئے آرمی چیف جنرل عاصم مُنیر کو ایک ٹویٹ کے ذریعے نہایت مُفید مشورہ دیا
ہےکہ ” اگر “جنرل فیض نے فوجی ڈسپلن توڑا اور آرمی چیف کو دھوکہ دیا ہے تو بھرپور کارروائی کی جائے ورنہ جیسے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اپنے دستِ راست فیض کا دفاع کرتے تھے ویسے ہی جنرل عاصم مُنیر بھی فیض کا دفاع کریں۔
پیشتر اس کے کہ کامران خان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے موجودہ آرمی چیف بھی جنرل باجوہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جنرل فیض کا دفاع کرنے کے لئے کمر کس لیں، کُچھ مُعاملات اور وجوہات پر اب بات ہو ہی جائے کہ کیا جنرل فیض نے ڈسپلن توڑا یا نہیں اور جنرل باجوہ جن خاص وجوہات اور ذاتی مفادات کی خاطر جنرل فیض کے دفاع کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے کیا وہ مُشترکہ مفاداتی سسٹم اب بھی ویسے ہی چل رہا ہے جیسے باجوہ ڈاکٹرائن کے بدنامِ زمانہ دور میں چل رہا تھا؟
مئی 2017 میں باجوہ ڈاکٹر ائن کے اعلی و ار فع مقاصد حاصل کرنے لیے جب سپریم کورٹ کے پانچ ہم خیال ججز پُوری تندہی سے پانامہ میں سے اقامہ نکال کر نواز شریف کو وزارت عظمی سے برطرف کرنے کے ” دو سالہ پلان “کے آخری مراحل طے کر رہے تھے تو جنرل فیض اور اُن کے حواریوں نے سوچا کیوں نہ اس گرم تندور میں اپنی بھی اربوں روپوں کی دو چپاتیاں لگا لی جائیں۔ بُلٹ ٹرین کی رفتار سے ایک منصوبہ بنا اور اسلام آباد میں موجود ” دہشت گردوں کے انتہائی خطرناک گینگ “ کو پکڑنے کا آپریشن پلان کیا گیا۔
میرے مُحلے ایف 11 میں 12 مئی 2017 کو نمازِ فجر سے کُچھ دیر پہلے رینجرز کی درجنوں گاڑیوں، ٹرکوں اور ایمبولینسز کا کانوائے ایک سو سے زائد مشین گنوں سے مُسلح سولجرز کے ساتھ داخل ہوا۔ آپریشن کے طے شُدہ پلان کے تحت گاڑیاں ایف 11 کی مُختلف گلیوں میں داخل ہو ئیں اور ایک مقرر وقت پر چار گھروں کو گھیرے میں لے لیا گیا۔
آپریشن فیضی ردالدہشت گردی کا آغاز ایف 11/4 میں رمیش سنگھ اروڑا کے گھر سے ہوا۔
دیواریں پھلانگ کر مُسلح وردی پوش اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد گھر کے اندر لکڑی کا دروازہ توڑ کر کمروں میں گھُس گئے۔ رمیش سنگھ جو کہ پنجاب اسمبلی کے اقلیتی ممبر تھے اور اُن کا خاندان کرتا پور سنگھ گُردوارہ کے نسل در نسل نگران ہے، خود اُس وقت کرتار پور گئے ہوئے تھے۔ گھر میں کوئی اور مرد بھی نہ تھا، صرف اُن کی بیوی، چھوٹے بچے، اُن کی بیوہ بہن اور اُس کے چھوٹے بچے سو رہے تھے۔ سب کو گھسیٹ کر بیڈ رومز سے نکالا گیا اور اور اُن ڈری سہمی عورتوں اور خوفزدہ بچوں سے تفتیش شروع ہوئی کہ “وقار” کدھر ہے۔ اب وقار تو وہاں کوئی تھا نہیں تو ملتا کیسے؟
کُچھ ہی دیر میں انتہائی تربیت یافتہ اور بہترین انٹیلیجنس اور ہتھاروں سے مُسلح لمبر ون افسران کو احساس ہوا کہ وہ غلط گھر میں گھُس گئے ہیں اور جس گھر میں اُنہیں جانا تھا وہ رمیش کے گھر کے سامنے سڑک کے دوسری طرف تھا۔ فوراً ہی وہاں سے پسپائی اختیار کی گئی۔
لیکن عورتوں، بچوں کی نفسیات اور مُحلے میں اُن کی عزت اور ساکھ کو جو نُقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چُکا تھا۔
رمیش سنگھ نے اُس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کو خط لکھا کہ آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے اُن کی چادر اور چار دیواری کی بے حُرمتی کی ہے لیکن باجوہ ڈاکٹرائن کے مرکزی ستُون جنرل فیض کو ٹچ کرنے کی جرات کس میں تھی؟
چند گلیاں چھوڑ کر رینجرز اور آئی ایس آئی کے تقریباً ایک سو افسران اور مُسلح جوان ایک اور گھر کی دیواریں پھلانگ کر اور دروازے توڑ کر وہاں موجود گھر والوں کو یرغمال بنا چُکے تھے۔
ارد گرد کے سب لوگ اس گھر کے مکینوں کو جانتے تھے، آنا جانا تھا، عزت تھی، لیکن آج اُسی گھر کا سیکورٹی اور انٹیلیجنس کے افسران اور اہلکاروں نے مُحاصرہ کیا ہوا تھا۔ باہر رنگ برنگی، جلتی بُجھتی لائیٹوں والے ڈالے، ٹرک اور ایمبولینسز کھڑی تھیں، پُورا مُحلہ جاگ چُکا تھا اور پریشان تھا کہ اتنے بڑے “دہشت گرد” اُن کے ہمسائے ہیں اور اُنہیں پتا ہی نہیں چلا۔ اندر تمام گھر والوں کو مین لاؤنج میں جمع کر کے اُن کے ہاتھ پیر باندھ دئیے گئے تھے۔ دس سال کے ایک بچے نے جب اُن لوگوں سے پوچھا کہ آپ ایساکیوں کر رہے ہیں تو اُس کو زمین پر پٹخ کر اُس کے مُنہ پر بُوٹ رکھ کر اُسے بتایا گیا کہ تُمہارا باپ “دہشت گرد” ہے۔
“دہشت گرد” باپ اسلام آباد-راولپنڈی کے سنگم پر موٹروے کے کنارے ہزاروں ایکڑ پر پھیلی نجی ہاؤسنگ سوسائیٹی کا مالک تھا جس کی قیمت کھربوں میں تھی۔ اور اس “دہشت گرد” کو صرف چار ہفتے پہلے پنجاب ریونیو اتھارٹی نے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے ذمہ دار بزنس مین کا ایوارڈ دیا تھا۔
اُس “دہشت گرد” کے گھر میں اُس کے 75 سالہ سُسر سے لے کر دو سال کے بچے اور بچیوں سمیت آٹھ لوگ تھے۔ سُسر، ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک اور اُس کے 20 سال کے سالے کو ہاتھ پاؤں باندھ کر پہلے گھر میں تشدد کیا گیا، گندی گالیاں دی گئیں اور پھر سر مُنہ پر کپڑا چڑھا کر، رینجرز کی گاڑیوں میں پھینکا گیا، گھر کا قیمتی سامان، کیش کرنسی، کاغذات اور لائسنسی اسلحہ ٹرکوں میں ڈالا اور کشمیر ہائی وے پر گولڑہ کے قریب ایک کمپلیکس کے تہہ خانے میں شفٹ کر دیا گیا۔
چیف صاحب آپ کو پتہ ہی ہو گا یہ جگہ کس کے پاس ہے۔
ایف 11 کے دو مزید گھروں میں ایسا ہی آپریشن کیا گیا اور وہاں سے ہاؤسنگ سوسائٹی کے دو افسران کو بھی بہیمانہ طریقے سے یرغمال بنا کر اُسی تہہ خانے میں شفٹ کر دیا گیا۔
وہاں پر اگلے کئی دن اور رات تفتیش کی آڑ میں سُسر اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک اور اُس کے دو ایگزیکٹوز پر تھرڈ ڈگری شدید تشدد کیا گیا۔ اور بجائے دہشت گردی کا پُوچھنے کے اُس کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے کاغذات کی ملکیت بارے پوچھتے رہے۔
چند دنوں بعد جب اُنہیں لگا کہ اس ہاؤسنگ سوسائیٹی کے مالک کا دماغ ٹھکانے آ گیا ہے تو اُس کو ایک اور کمرے میں لے جایا گیا جہاں اُس کے سامنے اُس کی ہاؤسنگ سوسائیٹی کی پراپرٹی ٹرانسفر کے کاغذات رکھے گئے اور اُسے حُکم دیا گیا کہ اس پر دستخط کر دو۔
اُن کاغذات میں پراپرٹی کی 50 فیصد ٹرانسفر کسی “نجف” نامی شخص کے نام پر اور بقیہ 50 فیصد ٹرانسفر لندن کی ایک رہائشی “معصومہ” کے نام پر مُنتقل کی گئی تھی۔
ہاؤسنگ سوسائیٹی کے مالک نے دستخط کر نے سے پھر انکار کر دیا۔ مزید تشدد سہنا پڑا لیکن وہ نہ مانا۔ آخر کار اُس پر 780 A کے تحت دہشت گردی اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کا پرچہ کاٹ کر سی ٹی ڈی پنڈی کے حوالے کر دیا گیا۔ اگلے تین سال کیس چلتا رہا جس میں وہ نہ صرف باعزت بُری ہوا بلکہ ہائی کورٹ نے بھی انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اور اب اپیل سپریم کورٹ کے دروازے پر مُسلسل دستک دیے جا رہی ہے لیکن ججز اپنی سیاست میں مصروف ہیں۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے تفصیلی فیصلے میں جھوٹے الزامات لگانے پر پراسیکیوشن کی دھجیاں اُڑا دی گئی ہیں۔ فیصلہ پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اس وطن میں کتنا ظُلم اور نا انصافی ہے لیکن ہمارا گلا سڑا عدالتی نظام دہائیوں بعد بھی انصاف دینے سے قاصر۔
بُوڑھا 75 سال کا سُسر جو اپنی بیٹی اور اُس کے بچوں سے ملنے دو دن کے لئے کراچی سے آیا تھا، وہ ذہنی اور جسمانی تشدد کو برداشت نہ کرسکا اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگیا۔ کبھی اسلام آباد واپس نہ آیا اور دو سال بعد اپنے کیس فائل اُٹھا کر اللہ کی عدالت میں پیش ہو گیا۔
تمام فیملی ممبرز تین سال کے لئے بیرون مُلک چلے گئے اور اپنے نفسیاتی مسائل کا مداوا کر کے واپس آئے۔
یہ واقعہ باجوہ ڈاکٹرائن کے دورِ فیضی کی دیگ میں سے چاول کا صرف ایک دانہ ہے جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سرکاری عہدے اور وردی کی آڑ میں مال سمیٹ فاشزم کس کس لیول پر جاری تھا۔
اس سے پہلے بھی جب جنرل رضوان ڈی جی آئی ایس آئی تھا تب چار نجی ٹی وی چینلز کے مالک کو اسلام آباد سے رات کی تاریکی میں اُٹھا لیا گیا اور اُس کو بھی ایک “سیف ہاؤس” کے تہہ خانے میں بند رکھ کر تب تک ذہنی اور جسمانی تشدد کیا گیا جب تک اُس نے اپنے ٹی وی چینلز کی ملکیت کی ٹرانسفر کے کاغذات پر دستخط نہیں کر دئیے۔
جب تک وہ میڈیا اونر یرغمال رہا، اُس کے گھر والوں کو کوئی خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں ہے، فیملی ہمیشہ کے لئے خوفزدہ اور نفسیاتی مریض ہو گئی۔
اُن ٹی وی چینلز کا قبضہ پہلے ایک ہوٹل چین کے مالک اور اُس کے مُلازم (جو آج کل تمام ٹی وی چینلز پر اپنا اسٹیبلشمنٹی-عمرانی تجزیاتی گیان بانٹتا ہے) اور پھر بعد میں ایک پراپرٹی ٹائکون کو دے دیا گیا جس نے ایک اور اسٹبلشمنٹی-عمرانی گیان بانٹنے والے اینکر کو اُس کا مُختارِ کُل بنا دیا اور پھر کُچھ عرصے بعد پیسہ ہضم اور کھیل ختم۔
لیکن اس درمیانی وقفے میں اُن ٹی وی چینلز اور تجزیہ نگاروں نے نواز شریف کو غدار اور کرپٹ قرار دے کر ہٹانے اور عمران خان کو مسیحا بنا کر پیش کرنے کی پروپیگنڈا مہم میں بھر پور حصہ ڈالا۔ ففتھ جنریشن وار کے نام پر جھوٹ اور بہتان کے ذریعے لوگوں کے دل و دماغ میں نفرت اور زہر بھر کر پاکستانی مُعاشرے کو تقسیم کر دیا گیا۔
جنرل پاشا اور جنرل ظہیر کے سُنہری دور میں بھی اغوا برائے تاوان کی ڈاکٹرائن اسلام آباد میں بڑے زور و شور سے جاری رہی۔ اور اُس کا کوئی توڑ نہ کر سکا۔ ایک بزنس مین جس کا غذائی اجناس کا کاروبار ہے اور وہ پاکستان کے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں میں بھی شامل ہے ایک دن شام کو دفتر سے ایف 8 گھر جانے کے لیے نکلا تو اچانک راستے سے غائب ہو گیا۔ڈُنذھیا مچی تو گاڑی رات کو ایک ویران سی سڑک سے ملی لیکن گاڑی والا غائب۔
گھر والوں سے کسی نے رابطہ کیا اور کہا کہ اگر اُسے لاش کی بجائے زندہ حالت میں وصول کرنا ہے تو 40 کروڑ روپوں کا بندوبست کر لیں-
اُس کاروباری شخص کو بغیر کسی رُکاوٹ کے اسلام آباد سے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا دیا گیا تھا۔ اس دوران بات چیت ہوتی رہی اور آخر کار اغوا کار جو اپنا تعلق ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم سے بتا رہے تھے، مُختلف طاقتور سرکاری، اور مذہبی شخصیات کی سفارش، مہارت اور گارنٹی سے ساڑھے آٹھ کروڑ روپوں کے تاوان لینے پر راضی ہوگئے.
یاد رہے کہ اُس وقت ایک ڈالر صرف 80-90 روپے کے درمیان تھا۔ ایک ویران اور محفوظ جگہ پر مغویان کو رقم ادا کر کے بزنس مین کو زندہ وصول کر لیا گیا۔
جس گھر کے جس کمرے میں اس بزنس مین کو رکھا گیا تھا وہیں اُسی جگہ کُچھ دن پہلے اسلام آباد کے ایک مشہور منی چینجر کو بھی اغوا کر کے مہمان بنایا گیا تھا وہ بھی دو کروڑ روپے ادا کر کے رہا ہوا۔
چیف صاب ! جتنے لوگوں کا میں نے یہاں ذکر کیا ہے میں اُن سب سے بار بار مل کر ان واقعات کی تصدیق کر چُکا ہوں۔ لیکن خوف کا یہ عالم ہے کہ سوائے رمیش سنگھ اروڑا کے تمام لوگوں نے کہا کہ ہمارا نام نہ لکھنا کیونکہ ریٹائرڈ ہونے والے فرعونوں کی باقیات اب بھی اداروں کے اندر بیٹھی ہیں اور اُن کو، اُن کے فیملی ممبرز کو اور اُن کے کاروبار کو نُقصان پہنچا سکتی ہیں۔
لیکن پھر بھی چند لوگ ابھی ہیں جو اپنے ساتھ ہونے والے ظُلم کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں اور مُدعی بننے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ اسٹیبلشمنٹ خود احتسابی کا آغاز کرے اور جیسا کہ کامران خان نے مشورہ دیاہے کہ اُن کے خلاف کارروائی کریں۔
سوچیں کہ اگر قوم کے ٹیکسوں سے لی گئی وردی، اسلحہ اور سرکاری پوزیشن پاکستان کے ٹاپ کے ٹیکس پئیرز سے ناجائز طور پر مال ہتھیانے، اُن کے کاروبار یا زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے استعمال ہونا ہے تو پھر اس مُلک میں بزنس کون کرے؟
ٹیکس کون دے؟
معیشت کیسے ترقی کرے؟
کامیاب لوگ اور ٹیکس پئیرز پاکستان میں کیوں رہیں؟
جب ہماری اینٹیلیجنس اور ہماری بندوقیں ہم پر ہی تنی رہیں گی تو دُشمن اور دہشت گرد ہمارے گھر میں گھُس کر ہمیں کیوں نہیں مارے گا؟
ایسا کیوں ہے کہ دُشمن سے بچانے والے کئی ذمہ داروں کی نظر صرف اپنی اور اپنی سات پُشتوں کے لئے دولت جمع کرنے پر ہوتی ہے؟ سوچئے !
اسلام آباد میں رہنے والے ہر قابل ذکر فرد کو ان اغوا برائے تاوان واقعات کا علم ہے لیکن نہ کسی میڈیا ہاؤس نے ان جعلی کارروائیوں کو نشر کیا، نہ کسی جج نے سو موٹو لیا، نہ کسی جرنیل نے اپنے پیٹی بھائیوں کے ظُلم کے خلاف کوئی “رد ال تاوان” آپریشن کیا اور نہ ہی کسی وزیر اعظم، وزیر، مُشیر میں جرات تھی کہ ایسے جرائم کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لاتا۔
اُمید ہے یہ سب پڑھنے کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم مُنیر آسانی سے فیصلہ کر سکیں گے کہ کامران خان کے مشورے کے کس حصے پر عمل کرنا ہے۔۔۔ کیا اُنہوں نے چند جنرلز کے ذاتی فائدے کے لیے کیے گئے ماضی کے جرائم کا دفاع کرنا ہے یا ایسی کالی بھیڑوں کے خلاف قانونی کارروائی کر کے وردی کی عزت اور پاک فوج کی ساکھ بحال کرنی ہے۔
چیف صاب! آج آپ طاقتور ہیں، مالک ہیں جو چاہیں فیصلہ کریں۔ آئین اور قانون کے راستے پر چل کر انصاف کریں گے، مُجرموں کو کٹہرے میں لائیں گے، وردی پہن کر کی جانے والی زیادتیوں اور ظُلم کا راستہ بند کریں گے تو یہ قوم آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کرے گی، اور قُدرت مزید نوازے گی۔ لیکن اگر آپ اپنے سے پہلے آنے والوں کے راستے پر چلے تو یاد رکھیے گا کہ ایک دن آئے گا.
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ۔۔۔۔ !!
مانو نہ مانو جانِ جہاں، اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں