گوجرانوالہ (شِںہوا) فروری کی ایک دھوپ سے بھر پور صبح میں گوجرانوالہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی فضا کنولا کے پھولوں کی میٹھی خوشبو سے مہک رہی تھی جو ہوا میں بتدریج سرایت کرتی جارہی تھی۔
سبز پھلی سے بھرے زرد پھولوں پر منڈلاتی شہد کی مکھیاں نہ صرف دیکھنے میں دلکش نظارہ پیش کررہی تھیں بلکہ مقامی کاروباری افراد اور کسانوں کی زندگی میں ایک نئے باب کے آغاز کی نوید بھی تھی جو زیادہ پیداوار کے حصول اور گھر پر پکانے کا تیل پیدا کرنے کےلئے کنولا کی چینی ہائبرڈ قسم کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔
فارم منیجر انتصاراحمد چٹھہ نے شِںہوا کو بتایا کہ ہم نے 100 ایکڑ زمین پر نئی قسم کی بوائی کی کیونکہ ان میں سرسوں اور ریپ سیڈ سمیت دیگر تیل دار اجناس کے مقابلے میں زیادہ پیداوار اور زیادہ تیل پیدا کرنے کی صلاحیت تھی۔
پاکستان میں کھانے کے تیل کی سالانہ کھپت تقریباً 50 لاکھ ٹن ہے لیکن مقامی منڈی میں تیل دار اجناس کی کم معاشی صلاحیت کے سبب کاشتکار اسے ترجیح نہیں دیتے۔ ملک کی طلب کو پورا کرنے کے لئے تقریباً 89 فیصد تیل درآمد کرنا پڑتا ہے جس پر سالانہ 3.6 ارب امریکی ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
ملک میں خوردنی تیل کی طلب پورا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے میں مدد کے لیے چینی کمپنی ووہان چھنگ فا ہی شینگ اور ایک پاکستانی کمپنی ایویول گروپ مشترکہ طور پر پاکستانی کاشتکاروں کو اعلیٰ معیار کے ہائبرڈ بیج فراہم کررہے ہیں۔
ایو یول گروپ کے شعبہ مارکیٹنگ کے سربراہ غضنفر علی نے شِںہوا کو بتایا کہ انہیں مقامی آب و ہوا سے مطابقت رکھنے والی، اچھی پیداوار کی حامل اور انسانی صحت کے لیے اچھی قسم تیار کرنے میں 10 برس لگے۔
انہوں نے فصل کی صلاحیت بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فصل کاشتکاروں کو زیادہ منافع دیتی ہے ۔ اس کا 2 کلو گرام کا معیاری پیک 2 ایکڑ زمین پر کاشت کے لئے کافی ہے اور کسان اس میں سے 1.5 ٹن پیداوار حاصل کرسکتا ہے جو اس وقت پاکستان میں دستیاب دیگر اقسام کی پیداوار سے 10 فیصد زیادہ ہے۔
ووہان چھنگ فا ہی شینگ سیڈ کمپنی کے انٹرنیشنل بزنس ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ژو شو شینگ نے شِںہوا کو بتایا کہ ان کی کمپنی پاکستان کو ٹیکنالوجی کی منتقلی پر کام کررہی ہے تاکہ اسمارٹ زراعت کو مئو ثر بنایا جاسکے۔