کراچی (کامرس رپورٹر) ملک بھر کے فرنیچر کے تاجر حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی، فرنیچر کے میٹیریل کی قیمتوں میں ہوشربا اور ناقابلِ برداشت اضافے اور ہولناک بیروزگاری کے خلاف اپنی اپنی مارکیٹوں میں احتجاج کرینگے جس کے تحت آرام باغ فرنیچر مارکیٹ کے تاجران کل 28فروری 2023 کو خالقدینا ہال، ایم اے جناح روڈ پر دوپہر 3بجے سے 5بجے تک مارکیٹ بند کرکے احتجاجی مظاہرہ کرینگے، اس سلسلے میں عتیق میر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک جانب حکومت عوام پر مہنگائی کے تابڑ توڑ حملے کررہی ہے اور دوسری جانب فوم، ہارڈ ویئر، شیشہ، پارٹیکل بورڈ، ہارڈ بورڈ، پلاسٹک، لکڑی، لوہا، ریگزین، اسٹیل پائپ، صوفے کا کپڑا، لاسانی بورڈ، رنگ اور پالش کے سامان سمیت فرنیچر میں استعمال ہونے والے ہر سامان کے مینوفیکچررز، ہولسیلرز اور ریٹیلرز وقفے وقفے سے من مانی قیمتیں بڑھارہے ہیں، ہفتے میں دو دو دفعہ قیمتیں بڑھانے سے فرنیچر کے آرڈرز بک کرنا مشکل ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں فرنیچر کا کاروبار کرنا دشوار تر ہوگیا ہے، فرنیچر کے کاریگر بیروزگار اور ملازمین کی چھانٹی شروع ہوگئی ہے، کام نہ ہونے کے نتیجے میں فرنیچر کی دکانوں اور کارخانوں میں نئے ملازمین اور کاریگروں کی گنجائش ختم ہوگئی ہے، قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافے سے فرنیچر کی خریداری عام آدمی کی پہنچ سے دور اور غریب افراد کیلئے اپنی بیٹیاں بیاہنا مشکل ہوگیا ہے، مارکیٹوں میں اعصاب شکن مندی، کساد بازاری اور سناٹے چھائے ہیں، انھوں نے حکومت سے بھی پُرزور مطالبہ کیا کہ عوام کو حکومتی سطح پر مہیا کی جانے والی سہولتوں کی قیمتیں کم اور ناجائز منافع خوری کے مرتکب اداروں کو لگام دی جائے، انھوں نے کہا کہ نہ رکنے والی مہنگائی کے ہاتھوں فرنیچر کے اکثر چھوٹے کاروبار بند ہونے کے قریب جبکہ مستحکم اور مضبوط کاروبار بھی تباہی کا شکار ہوگئے ہیں، دکانوں اور کارخانوں میں سامان کا اسٹاک منجمد اور مارکیٹوں میں سناٹے چھاگئے ہیں، بیشتر دکاندار اور کارخانے دار اپنی جمع پونجی ختم ہونے کے سبب مقروض ہوگئے ہیں انھوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان بدترین اور کٹھن حالات کا شکار ہوکر فرنیچر کے کاروبار سے منسلک لاکھوں خاندان بیروزگاری اور فاقہ کشی کا شکار ہورہے ہیں انھوں نے مصنوعی مہنگائی مسلط کرنے والے مافیاز کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر انھوں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا اور قیمتوں میں من مانے اضافے کے سلسلے کو لگام نہ دی تو ہم ان کی مصنوعات کا مکمل کا بائیکاٹ اور ان کے خلاف احتجاج کے دائرہ کار کو وسیع تر کرنے پر مجبور ہونگے۔