ضلع ملیر میں انتہائی بااثر سمجھے جانے والے پولیس افسر سید عرفان علی بہادر کے انتہائی غیر متوقع تبادلے کے بعد متعدد پولیس افسران نے SSP ملیر کی خالی نشست کے حصول کیلئے ایڑی چوٹی کا روز لگانے کے ساتھ ساتھ سائیں سرکار اور بااثر سیاسی شخصیات کی چوکھٹوں پر حاضری
کے علاوہ انہیں جی حضوری اور غلامی کی یقین دہانی بھی کروائی لیکن سید عرفان علی بہادر کے تبادلے کی طرح ملیر پولیس کی غیر متوقع سربراہی اچھی شہرت کے حامل پولیس افسر حسن سردار خان نیازی کو حاصل ہوئی پیپلز پارٹی کی اعلیٰ شخصیت کے اس فیصلے نے متاثرہ اور ناکام پولیس افسران کو ہی نہیں بلکہ ملیر کے مختلف علاقوں میں سرکاری اراضی کو باپ کا مال سمجھ کر لوٹنے والے مختلف مافیاز گروہوں اور مختلف منظم غیر قانونی دھندوں کے پنڈتوں کے تمام اندازے غلط ثابت کرتے ہوئے سکتہ سا طاری کردیا سابق SSP ملیر سید عرفان علی بہادر جہاں سندھ کی بااثر شخصیات سے اچھے مراسم قائم رکھنے کیلئے بعض مافیاز کی سرگرمیوں کو نظر انداز کرتے تھے ویں ناصرف ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک ہیں بلکہ غریب پرور انسان بھی ہیں اور ایسے کئی واقعات ریکارڈ پر ہیں کہ انھوں نے عام شہریوں کو ناصرف میرٹ پر انصاف فراہم کیا بلکہ عوامی شکایات پر بڑے پیمانے پر ملوث پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف قانونی کاروائی بھی عمل میں لائی گئی سید عرفان علی بہادر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے شاید یہی وجہ ہے کہ وہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے پسندیدہ افسران میں شامل نہیں تھے اور انکے تبادلے کو کسی الزام کے تحت نہیں بلکہ ناراض آئی جی اور سائیں سرکار کی ملی بھگت اور ایک سازش قرار دیا جارہا ہے ملیر میں بطور SSP کئی اہم پولیس افسران تعینات رہے جن میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن اور اچھی شہرت اور دیانت دار پولیس افسر کے طور پر شناخت کے حامل ثناء اللہ عباسی بھی شامل ہیں غلام نبی میمن کی بطور آئی جی تعیناتی سے قبل ثناء الله عباسی کو آئی جی سندھ تعیناتی کی آفر بھی کی گئی تھی جو انھوں نے شکریئے کے ساتھ رد کردی تھی بعد ازاں غلام نبی میمن نے ماضی کی روایت تبدیل کرتے ہوئے مشروط شرائط کے عوض سندھ پولیس کی سربراہی حاصل کرلی جو تاحال قائم ہے ذرائع کے مطابق آئی جی سندھ کی ناراضگی کے بعد حال ہی میں ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو بھی سید عرفان علی بہادر سے اُس وقت نالاں ہوگئے جب انکے انتہائی قریبی سمجھے جانے DSP بن قاسم نظر محمد دریشک جن پر پاکستان اسٹیل ملز سے تابنا اور لوہا چوری میں ملوث بڑے گروہ کے زیر حراست سرغنہ کا الزام ایک ویڈیو کی صورت میں اعلیٰ پولیس افسران کے علاوہ سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا جس میں ملزم نے متعدد ایس ایچ اوز کے علاوہ DSP بن قاسم نظر محمد دریشک کو اسٹیل ملز کے چوروں کا سہولت کار اور بھتہ خور قرار دیا مذکوره ویڈیو بیان کی ریکارڈنگ اور سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا ذمہ دار سید عرفان علی بہادر کے قریبی SSP ملیر آفس کے طاقتور پولیس افسر اشتیاق غوری کو سمجھا جاتا ہے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد SHO بن قاسم اور DSP بن قاسم کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تاہم چند گھنٹوں کے بعد سنگین الزام میں ملوث ہونے کے باوجود نظر محمد دریشک کو DSP سرجانی لگا دیا گیا اور عرفان بہادر کے تبادلے کے بعد نظر محمد دریشک کو ایک بار پھیر DSP بن قاسم تعینات کرکے جہاں جسکی لاٹھی اسکی بھینس والی مثال درست ثابت ہوئی وہیں آئی جی سندھ کی دیانت داری اور میرٹ پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا توقع کی جارہی ہے کہ اب DSP اشتیاق غوری کے علاوہ عرفان بہادر کے قریب سمجھے جانے والے ایس ایچ اوز کو بھی تبدیل کردیا جائے گا تاہم آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کے تابعدار اور خدمت گار پولیس افسران کے علاوہ بعض ٹی وی چینل کے رپورٹرز کی خصوصی سفارش پر ملیر کے دو اہم تھانوں میں تعینات ایس ایچ اوز بھی محفوظ رہیں گئے اب دیکھنا یہ ہے کہ SSPملیر کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے اچھی شہرت کے حامل SSP ملیر حسن سردار خان نیازی ملیر کے عوام ، اپنے ماتحت پولیس افسران اور اہلکاروں کو فراہمی انصاف جبکہ منظم اور طاقتور سیاسی شخصیات ، جعلی صحافیوں سمیت اربوں روپے مالیت کی سرکاری اراضی پر قبضے اور فروخت میں ملوث بااثر لینڈ مافیا ، سنگین جرائم میں اور گھناونے دھندوں میں ملوث سفید پوش سہولت کاروں کے خلاف کاروائی میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں SSP ملیر حسن سردار خان نیازی بطور ASP فیروز آباد ،SPشاہ فیصل کراچی کے علاوہ ٹھٹھ بدین اور اندرون سندھ کے اہم علاقوں میں پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انتہائی دیانت داری سے اور میرٹ پر سرانجام دے چکے ہیں اب ملیر کی آب وہوا ماضی کی روایت کو برقرار رکھتی ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت اور SSP ملیر حسن سردار خان نیازی کے فیصلے ہی ثابت کرینگے