ایک لڑکی کی میں نے قدر نہیں کی ، دوسری نے میری قدر نہ کی ، دونوں کی شادیاں ہوگئیں ، دونوں خوش و خرم ہیں اور میں شادی شدہ ہوں ، بس ۔۔۔
ابھی میں یہ لکھ رہا تھا ایک دوست نے ٹوک دیا اور بولا کہ بھی اس زمانے میں یوں تھوڑی لکھا جاتا ہے ، میں نے عرض کیا ، حضورا! کیسے لکھا جاتا ہے´فرمانے لگے لکھو ! میں نے ایک لڑکی کو گھاس نہیں ڈالی ، تو دوسری نے مجھے گھاس نہیں ڈالی ، ان دونوں نے اچھی جگہوں پر شادیاں کرلے اپنا ،من کا رانجھا راضی کرلیا اور اب موجوں میں ہے لیکن میری ان کے بعد کہیں اور شادی ہوئی ہے تو اب سمجھو میری کُتیا کُتیا ہورہی ہے ۔۔۔ یہ سن کر میرے پاس جواب کیلئے زبان رہی نہ الفاظ ۔۔۔ حیران اسے تکتا رہا ، اس سے پہلے کہ بولتا ، وہ خود ہی بولا میاں ! اب ایسے الفاظ ہی چلتے ہیں ، میں جواباً عرض کیا کہ جو میں نے لکھا تھا ان کا بھی مطلب یہی لیا جاسکتا ہے تو پھر یہ کُتیا کُتیا ۔۔۔ والی بات اور گھاس کے الفاظ کیوں ۔۔۔؟ خادا کا خوف کرو۔۔ موصوف فرمانے لگے ، اب زمانہ بدل گیا ، ایسے الفاظ کوئی نہیں پڑھتا ، اس نے فٹ مجھے سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود کی مثالیں دیں ، کہنا لگا اب کتنے لوگ سہیل وڑائچ کے سیاسی تجزیے سنتے اور پڑھتے ہیں اور وجاہت مسعود کی عمرانی تبلیغ کے کتنے سننے پڑھنے اور دیکھنے والے ہیں ؟ اور ان کے مقابلے میں فلاں۔۔ فلاں ۔۔ کی کتینی ریٹنگ ہے ؟ دیکھو ذرا کچھ سمجھو ! ، مجھے اس دوست کی بات پر غصہ تو بہت آیا لیکن سہیل وڑائچ کا اور وجاہت مسعود کا نام سنتے ہیں چند روز پہلے ریڈیو پاکستان کے لاہور مرکز میں ہونے والی اتفاقیہ ملاقات اور کچھ الفاظ یاد آگئے ۔۔۔ سہیل وڑائچ میرے یسے الٹی ترچھی لانیں لکھنے والوں کی دک کھول کر حوصلہ افزائی کرنے والے ہیں ، آپ نے کچھ بھی لکھا ہو ، اگر اس میں کچھ حقائق اور درست تجزیہ یا پیش گوئی ہے تو تحریری جیسی بھی ہو سہیل وڑائچ پڑھ کر آپ کی حوصلہ افزائی کریں گے ، یہ کسی ذاتی تعلق کی بنا نہیں بلکہ ’گلوبل پِنڈ کی بیٹھک ‘ کی ٹوٹی پھوٹی تحریروں پر سہیل وڑائچ کے کمنٹس سے ہونے والے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ،وہ سبھی کو پڑھنے اور تبصرہ کرنے میں غالباً خوشی محسوس کرتے ہیں شائد انہیں روحامی طور پر پتہ چل جاتا ہے کہ جسے کسی نے نہیں پڑھا ، اسے سہیل وڑائچ نے پڑھ لیا اور رہنمائی بھی کی ہے ، یہ کام ساٹھ کی دہائی کے اساتذہ کیا کرتے تھے ، وجاہت مسعود اور سہیل وڑایچ بھی ویسے ہی ہیں ، ملاقات کے دوران ایک بات پر جب میں جملہ کسنے لگا کہ’ کیا یہ کھلا تضاد نہیں‘ تو اس سے پہلے ہی انہوں نے تضاد کا ذکر کرکے لاجواب کردیا ، پوچھا ، بھئی بڑے دنوں سے کچھ لکھا نہیں؟ کیوں نہیں لکھا؟ یعنی وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ جن معاملات پر بلتے رہتے ہو ، اب خاموش ہو ، کیایہ خاموشی کھلا تضاد نہیں؟ تو میں عرض کیا کہ میرا لکھا ہوا کوئی پڑھنے والا نہیں غیر معروف بات کوئی پڑھنا نہیں چاہتا ، لفاظی آتی نہیں منافقت بھی ڈھنگ نہیں ، کسی کے ساتھ پارٹی بھی نہیں اور ایسے حالات میں جبکہ کوئی بھی ایسا دکھائی بلکہ سجھائی نہیں دیتا جو اپنی پارٹی یا مرضی کے برعکس سننا ، دیکھنا اور پڑھنا چاہتا ہو تو بین کس کے سامنے بجا کر سانس کا امتحان لیا جائے ایسے لوگوں پر الفاظ کیوں ضائع کیے جائیں جو اپنی خواہش کے برعکس دن کو دن اور رات کو رات لکھا، پڑھنا یا سننا نہیں چاہتے جبکہ موجودہ سماجی و معاشی حالات ایسے ہی لوگوں کی بے حسی ، لاپروائی اور یکطرفہ سوچ کا نتیجہ ہیں ۔ جواب میں سہیل وڑائچ نے جو کہا میں لکھ کر اپنی بے عزتی نہیں کرنا چاہتا لیکن اس میں سبق یہی ہے کہ ایسے بکواس کے بجائے لکھو ، کوئی نہ کوئی ضڑور پڑھے گا اور رہنمائی کرے گا جاہلانہ و بزدلانہ دقیانوسی خیالات کو جنم مت لینے دو ، یہ شفیق و برادرانہ تنبیہہ تھی ۔سہیل وڑائچ مسکراہٹ اور بلیک کار جیسا چشمہ درست کرتے ریڈیو سے روانہ ہوگئے اور لان میں میری اس دوست سے گفتگو پھر شروع ہوگئی ، یہاں وجاہت مسعود کا بھی ذکر رہا اور بحث رہی کہ ان کو کتنے پڑھنے والے ، یہ بحث رات پریس کلب کے لان میں بھی رہی اور ستائشِ باہمی کے اصول پر اختلافِ رائے موقف کرتے ہوئے اس نتیجے کے ساتھ عدالتی انداز میں نمٹائی گئی کہ جنہوں نے سمجھنے کیلئے پڑھنا ہے وہ سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود کو اب پڑتھے ہیں اور جنہوں نے حالیہ حقائق جھٹلانے کے بعد مستقبل میں ماضی ے بطور حوالہ جاننا ہیں وہ اب فلاں فلاں کو پڑھتے ہیں اور پانی بہہ جانے کے بعد اس کی نمی صرف تصور میں محسوس کرنی ہے وہ ان ونوں کو نہیں پڑھتے ۔ہاں یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ ان دونوں کی زیادہ تر تحریریں ہوتی ادراک رکھنے والوں کیلئے ہیں ، عام لوگوں کو سمجھنے میں مشکل بھی پیش آتی ہے کیونکہ کتاب دوستی اور زبان کی وسعت قلبی سے اب ہماری زبان اپنے سے زیادہ پرائی ہوتی جارہی ہے اور ہمیں رشتوں کی پہچان ختم ہوتی جارہی ہے ، انکل آنٹی نے ماسی ، پھوپھی ، خالہ ، تائی چچی ، ماموں خالو ، چچا تایا بھلا دیا ہے ۔ اب اگر پب جی اور گوگل بچوں کے سامنے ان رشتوں کی بات کریں گے تو مشکل تو آئے گی ، ٹو ان ٹو فور تو کچھ کو یاد ہوگا لیکن دو دونی چارانجان یا تو مذاق لگے گا۔
لان میں بیٹھے بیٹھے ریڈیو کا اس روز نشر ہونے والا مقامی بلیٹن آگیا، دیکھا تےو اس میں اردو کم اور انگریزی زیادہ تھی ، ماسضی میں اگر کسی براڈ کاسٹر کے سامنے یہ خام بلیٹن آتا تو معلوم نہیں مرتب کرنے والے سے کتنا عرصہ قطع تعلقی پر نوبت آجاتی ، یہی حشر پنجابی بلیٹن کا تھا جس میں پنجابی صرف اشاروں کی حد تک ورنہ انگریزی اور اردو کا قبضہ ہر سطر میں پچاس فیصد سے زائد تھا، درست کرتے کم و بیش سبھی صفحات نیا لباس پہن چکے تھے ، باتیں کرتے جب نیوز روم میں پہنچے تو سرکاری ٹی وی اور نجی چینل کےبلٹین اور اسکرین پر دکھائی دینے والی پٹیوں کی زبان و بیان سے ایک بار پھر ہم دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا ، غور سے ، گھور کر ، مسکرا کر دیکھا اور بیک وقت قہقہہ لگایا کہ جو بلیٹین ہم نے درست کیا ہے اسے تو ایسے حالات میں چوم کر اسکرین پر لٹکا دینا چاہئے ، اسی سوچ میں بلیٹن شروع ہواتو یوں لگاجیسے کوئی چیخ کر مدد کو پکار رہا لیکن ساتھ ہی ریڈیو پر دمن زمان کی ٹھہری ہوئی آوازآواز گونجی۔۔۔ نیوز ریڈ بائی دمن زمان ، ساتھ ہی خالد حمید ، مہ پارہ ،اور اس دور کے خبریں پڑھنے والے یاد آگئے ۔
ادھر سے توجہ ہٹا کر میں نے پھر نئے کاغذ اور قلم کے ساتھ لکھا کہ۔۔۔ میں بس شادی شدہ ہوں۔۔۔ اس دوست نے کاغذ لیکر پھاڑ دیا اور کہا ، اس سے آگے کی سمجھ ہر شادی شدہ شخس کو آجائے گی ، بات تمہاری کسی حد تک درست ہے لیکن باقی پھر کبھی لکھ لینا۔