لاہور(نمائندہ خصوصی ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 22فروری بروز بدھ کو لاہور سے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے ملک کے ہر بڑے شہر تک پھیلائیں گے ، ہم ان کی جیلیں بھر دیں گے اور ان کے پاس جگہ نہیں ہو گی ،عوام سے کہتا ہوں خوف کے بت کو توڑ دیں ، یہ ہمیں جیلوں سے ڈرا نہیں سکتے ، مجھے عدالتیں بلا رہی ہیں،جب میں پہلے بتا دیا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے کسی نے مجھے نہیں بچایا کسی نے پرواہ نہیں کی بلکہ جنہوں نے بچانا تھا وہ خود ہی ملوث تھے،میری جان کو ابھی بھی ان لوگوں سے خطرہ ہے جن سے پہلے تھا مجھے کون تحفظ دے گا، میں جب پبلک میں جاﺅں گا تو مجھے ان لوگوں سے خطرہ ہے ۔ ویڈیو لنک کے ذریعے قوم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اپنی جماعت اور پوری قوم سے کہتا ہوں تیاری کر لیں ہم نے 22فروری سے جیل بھرو تحریک کا لاہور سے آغاز کرنا ہے اور ہر روز ملک کے ہر بڑے شہر تک اس تحریک کو پھیلائیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ ملک کا آئین بڑے واضح طریقے سے کہتا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے کے بعد نوے روز میں انتخابات ہونا ہیں اور اگر نوے روز کے بعد ایک بھی روز اوپر ہوتا ہے تو نگران حکومت غیر آئینی ہو جائے گی اور سب پر آئین کی خلاف ورزی کی شق لگتی ہے اور ساری سزائیں لاگو ہوتی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ چیف الیکشن کمشنر کا جو کردار سامنے آرہاہے وہ انتہائی شرمناک ہے ،انہیں پتہ ہے کہ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ نوے روز میں انتخابات کرانے ہیں ، نہ دو صوبوں کے گورنر زاور نہ الیکشن کمیشن عملی اقدامات کر رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے بے بسی ظاہر کر رہی ہے کہ حکومت کا کوئی ادارہ تعاون نہیں کر رہا ، ہمارے پاس پیسے نہیں ہے ۔ عمران خان نے کہا کہ یہ سمجھ جائیں جس دن پاکستان کے آئین پر عمل نہیں ہوتا عدلیہ عمل نہیں کر اسکتی ، کیونکہ آئین کی تشریح عدلیہ کرتی ہے ،کوئی بھی حکومت یا اس کے محکمے کہہ دیں کہ ہم تعاون نہیں کر کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک میںقانون ختم ہو گیا ہے ، اگر عدلیہ عمل ہی نہیں کر اسکتی تو یہ سمجھ جائیں اس سے بڑی بربادی ملک کی ہو نہیں سکتی ۔ ملک جنگیں ہار کر پھر سے کھڑے ہو جاتے ہیں، ایک ملک دو ایٹم بم گرنے کے بعد دس سالوں میں خوشحال ہو گیا ، بم ،جنگیں ، زلزلے ملکوں کو تباہ نہیں کرتے ملک تب تباہ ہوتا ہے جب اس ملک میں انصاف ختم ہوتا ہے ، قانون کی حکمرانی ختم ہو جاتی ہے ، جب اس ملک کا بنائے ہوئے آئین پر عمل ختم ہو جاتا ہے ،ججز کی ججمنٹ پر عمل نہیں ہوتا ، ہم آج وہاں کھڑے ہو گئے ہیںجہاں سارے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ نوے روز کے انتخابات کا شیڈول کب آئے گا ،میں پاگل تو نہیں تھا کہ اپنی دو حکومتیں تحلیل کر دوں ، ہم نے آئین کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی دو حکومتیں تحلیل کیں ۔ہم نے پہلے کہا تھاکہ امپورٹڈ حکومت آئی ہے یہ ملک نہیں چلا سکتے کیونکہ ان کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے جو انتخابات سے آتا ہے اس کے پاس مینڈیٹ ہوتا ہے جو آکشن سے آتا ہے جو لوگوں کے ضمیروں کی قیمت لگاکر حرام کے کروڑوں روپے خرچ کر کے حکومت گراتا ہے اس کے پاس پبلک مینڈیٹ نہیں ہوتا وہ کبھی اس ملک کو نہیں سنبھال سکتا ۔ عمران خان نے کہا کہ یہ کہتے ہیں ہم نے مشکل فیصلے کئے ، آپ نے کیا مشکل فیصلے کئے ، ہر چیز کی تو قیمتیں بڑھا دیں کیا یہ مشکل فیصلے ہیں ، ہم بھی آئی ایم ایف کے نیچے تھے ،ڈھائی سال نیچے تھے ،ہمیں کہا گیا قیمتیں بڑھائیںہم نے اپنے ملک کی دولت بڑھائی ، پوری کوشش کی جب دولت بڑھے گی ہم قرضے واپس کریںگے،انہوں نے آئی ایم ایف کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی کہ آئی ایم ایف کہہ رہا ہے ،لوگوں کی کمر توڑ دی ، ملک کی آمدنی سکڑ گئی برآمدات اور ترسیلات نیچے آ گئیں ، ٹیکس کلیکشن نیچے آرہی ہے ، زراعت کی پیداوار نیچے آرہی ہے ہم نے قرضے کیسے واپس کرنے ہیں ، حل تو یہ ہے ملکی دولت میں اضافہ کریں ۔ عمران خان نے کہا کہ ان کے پاس مینڈیٹ اورنہ صلاحیت ہے یہ ری سٹرکچرنگ اور اصلاحات نہیں کر سکتے جس سے ملک کی آمدنی بڑھے ۔ اگر کسی کا خیال ہے کوئی بڑا قابل جینئس لے ائیں ایسی معاشی پالیسی دیں کہ ملک اٹھ جائے گا تو معاشی پالیسی ایک ماحول کے اندر بنائی جاتی ہے ، گورننس سسٹم ہو تا ہے سب سے اہم قانون کی حکمرانی ہوتی ہے ، کیا سرمایہ کار موجودہ حالات میں یہاں آئیں گے جب ان کو تحفظ ہی نہیں مل سکتا ، کیارے ہمارے نظام میں قانون پر عملدرآمد کی صلاحیت ہے ۔ آج یہ حال ہے کہ لوگوں نے جو ڈالرز بینکوں میں رکھے ہوئے تھے وہ انہیں واپس نہیں مل رہے ، لوگ اکاﺅنٹس سے ڈالرز سے نہیں نکال سکتے ،حکومت اور عوام کے درمیان سوشل کنٹریکٹ ہوتا ہے اس کی بھی نفی کر کے رکھ دی ہے اب کون باہر سے پیسے لے کر آئے گا، بیرون ممالک پاکستانی اپنا پیسہ نکالنا شروع ہو گئے ہیں ، باہر سے پیسہ نہیں لا رہے ۔عمران خان نے کہا کہ ان کی سوچ نظر نہیں آرہی کہ انہوں نے انتخابات کرانے ہیں ، ہر ادارے پر دباﺅ رکھا جارہا ہے کسی نہ کسی طرح انتخابات کو کھینچیں ، پی ڈی ایم انتخابات سے بھاگ رہی ہے کیونکہ یہ انتخابات سے ڈرتے ہیں،یہ الیکشن سے نہیں آکشن سے بیٹھے ہوئے ہیں، یہ چاہتے ہیں آئین کی خلاف ورزی ہو جائے انتخابات نہ ہوں ۔ انہوں نے کہاکہ اب انتخابی مہم کی تیاری ہونی چاہیے تھی امیدواروںکا حتمی اعلان کرناچاہیے تھا کہ وہ اپنے حلقوں میں نکلیں اور انتخابی مہم چلائیں لیکن ابھی تک تاریخ نہیں مل رہی ۔ انہوںنے کراچی میں بھی ایسا ہی کیا تھا کہ آخر میں اعلان کیا اور امیدواروں کو اتنا وقت نہیں ملا کہ وہ مہم ہی چلا سکا، یہ چاہتے ہیںٹرن آﺅٹ کم ہو اور پھر یہ دھاندلی کریں ، پیپلز پارٹی کا کراچی میں ووٹ بینک ہے ہی نہیں وہاں انہوںنے یہ ایسا ہی کارنامہ دکھایا ہے ۔ جولائی اور اکتوبر میں ضمنی انتخابات ہم جیتے کیونکہ اس میں بڑا زبردست ٹرن آﺅٹ رہا اور ہم نے دھاندلی کے باوجود کامیابی حاصل کی۔ پہلے تو یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات کا انعقاد ہی نہ ہو اور اگر ہوں بھی تو اتنا کم وقت دیا جائے کہ کوئی انتخابی مہم نہ چلا سکے اور یہ انتخابات جیت جائیں ،یہ ان کی بھول ہے کہ ہم چپ کر کے انتخابات چوری کرنے دیں گے یہ ایسا نہیں کر سکتے ، یہ ہرحربہ استعمال کریں گے ، عدلیہ پر دباﺅ پر ڈال دیا ہے کہ انتخابات کسی طرح آگے جائےں ۔ان کی کوشش ہے کہ گرفتاریاں کر کے تحریک انصاف کو کمزور کیا جائے اور ڈرایا جائے ،ہم آپ کا شوق پورا کر دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی میں اینٹی کرپشن سے ایک افسر آیا جس نے سارا ریکارڈ ہی غائب کر دیاہے ، اب وہاں صرف 11صفحات بچے ہیں جو بے معنی ہیں ۔اینٹی کرپشن میں شہباز شریف کا آدمی تھا وہ ہمیں ریکارڈ ہی نہیں دیتا ۔ سارا ریکارڈ غائب کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کو پتہ تھاکہ اگر پکڑ اجانا تھا ساری کڑی ان کی طرف جارہی تھی ۔ یہ سیاستدان نہیں مافیاز ہیں ، وزیر اعظم ہوتے ہوئے میری محفوظ لائن بھی ٹیپ کی گئی ، پرنسپل سیکرٹری سے بات کو پبلک کیا گیا ،عدلیہ سے کہتا ہوں ملک کے فیصلے عدلیہ فیصلہ کرتی ہے یہ اس پر بھی نہیں چلتے،یہ بلیک میل کرنے کے لئے یہ حرکتیں کریں گے تو ملک میں قانون ختم ہو گیا ، عدلیہ کی ججمنٹ کی پرواہ نہیں ہو رہی پھر کون سا سرمایہ کار آئے گا۔