کتنے دکھ کی بات ہے کہ عزیز ناروی کے انتقال کو پورا ڈیڑھ ماہ گزر گیا ہےلیکن اس کی خبر اب ملی ہے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اس کا انتقال یکم جنوری 2023 کو ہواتھا۔ اور ہمیں اس کی خبر کراچی سے کسی صحافی دوست، صحافیوں کی تنظیم یا پریس کلب سے ملی اور نا ہی فیس بک پر کسی فیس بکی دوست کی وال پر ہم نے یہ المناک خبر دیکھی۔ ہمیں یہ افسوس ناک اطلاع عزیز ناروی کے ایک عزیز اور ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر حامد کمال نے دی جو امریکہ ہی میں رہتے ہیں اور امریکہ میں بزرگ جوانوں کے فورم کے اہم رکن ہیں۔
ہم صحافی بھائی اپنے غم روزگار میں اور پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے شاید اتنے مصروف ہیں کہ ایک دوسرے کی خبر رکھنے کا وقت نہیں ملتا یا نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بے خبر اور لاپرواہ ہو چکے ہیں کہ اپنے سینئر ساتھیوں کی خبر رکھنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتےکہ وہ کن حالوں میں ہیں ؟ اس سے پہلے حفیظ صدیقی، یونس ریاض اور عبدالوحید حسینی کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ان تینوں کے انتقال پر ملال کی خبر ہم نے امریکہ سے بریک کی تھی۔ یہ کیسی لا پروائی ہے ؟ آج ہم اپنے سینئرز کے ساتھ غفلت کا یہ سلوک کر رہے ہیں۔کل ہمارے جونیئر ز ہمارے ساتھ بھی یہی رویہ رکھ سکتے ہیں۔نعیم ابرار کی بے بسی کی موت تو ابھی حال ہی کی بات ہے۔ان رویئوں پر دکھ اور تشویش کا اظہار نہ کیا جائے تو اور کیا جائے۔
عزیز ناروی بڑے کھلے ڈھلے مزاج کا ہنس مکھ انسان تھا۔ہر ایک سے جلد بے تکلف ہوجاتا۔اس سے ملنے والا ہر شخص سمجھتا کہ وہ اس کا پہلے سے جاننے والا ہے۔چہرے پر مسکرائٹ لئے جب وہ بات کرتا تو دوسروں کی توجہ حاصل کرنے میں زیادہ وقت نہ لگتا اور پھر اس کی یہ ملاقاتیں دائمی دوستی میں بدل جاتیں۔اس کی ہمارے ساتھ دوستی بھی اسی طرح شروع ہوئی۔1980کے عشرے کے آخری دور کی بات ہے۔کہ جنگ کے نیوز روم میں ایک نئے صحافی کو کام کرتے دیکھا پوچھا یہ نئے صاحب کون ہیں۔ بتایا گیا کہ ان کا پورا نام عزیز الحق صدیقی ہے لیکن یہ عزیز ناروی کہلاتے ہیں اور کوئٹہ جنگ سے ان کا تبادلہ یہاں ہوا ہے۔اپنی خبریں فائل کرنے کے بعد جب ہمیں فرصت ملی تو ہم نے اس کے پاس جا کر سلام کیا،خیر خیریت دریافت کی اور اسے خوش آمدید کہا تو وہ کھل اٹھا،جیسے ہمارا انتظار ہی کررہا تھا۔علیک سلیک کے رسمی جملے ختم ہوتے ہی کہنے لگا “ جماعتئے لگتے ہو۔میں نے ساری معلومات لے لیں ہیں۔تمہارا تعلق کشمیر سے ہے۔خوب دوستی رہے گی”
یہ تھی عزیز ناروی سے ہماری پہلی ملاقات جو اس کے بعد برسوں جاری رہی۔اس کا چھوٹا بھائی الطاف الحق صدیقی صحافت میں تھا۔ اس کو ہم الطاف صدیقی کے نام سے جانتے تھے۔ وہ دائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایف کا لیڈر بھی رہ چکا تھا۔وہ کراچی سے کوئٹہ چلاگیا تھا اور وہیں رہنے لگا۔روزنامہ مساوات شروع ہوا تو وہ کوئٹہ میں اس کا بیورو چیف مقرر ہوا۔اس کے تعلقات کوئٹہ کے صحافیوں سے قائم ہوئے، جن میں جنگ کوئٹہ کے سرکار احمد بھی شامل تھے۔عزیز ناروی بھی اس وقت اپنے بھائی کے پاس کوئٹہ ہی میں تھا۔ اس زمانے میں جنگ کوئٹہ میں سرکار احمد ہی سب کچھ تھے اور جنگ کے بانی اور ایڈیٹر انچیف میر خلیل الرحمن ان کا بڑا خیال کرتے تھے۔عزیز ناروی صحافت میں آنے سے پہلے کراچی میں انشورنس کی بڑی کمپنی ای ایف یو میں کام کرتا تھا لیکن اس کا رجحان شاعری،ادب اور مصوری کی طرف تھا اور فارغ وقت میں عالمی شہرت یافتہ مصور اور خطاط صادقین کے یہاں مصوری اور شاعری کی مشق بھی کرتا تھا۔الطاف صدیقی اپنے بڑے بھائی کو بھی صحافت میں لانا چاہتا تھا۔اس نے سرکار احمد کے توسط سے عزیز ناروی کو جنگ میں ملازمت دلا دی اور کئی برس وہ وہاں کام کرتا رہا۔پھر اس کی سرکار احمد سے کچھ ان بن ہوگئی۔الطاف بھی کوئٹہ چھوڑ کر کراچی چلا آیا تو عزیز ناروی نے بھی اپنا تبادلہ جنگ کراچی کے نیوز روم میں کرالیا۔کافی عرصہ جنگ میں کام کیا لیکن وہ یہاں بھی اپنی منشا کے مطابق جگہ نہ بنا سکا تو جنگ سے علاحدگی اختیار کرلی اور پھر مختلف اخبارات اور جرائد میں طبع آزمائی کرتا رہا۔کافی عرصہ فری لانس صحافی کے طور پر بھی کام جاری رکھا۔اس نے الیکٹرونک میڈیا میں بھی کام کیا اور قسمت آزمانے دوبئی چلاگیا، اے آر وائی سے وابستہ ہو گیا اور دوبئی میں اس کا انچارج ہوگیا۔پاکستان آیا تو اے آر وائی کے علاوہ آج ٹی میں بھی کچھ عرصہ کام کیا۔اس کی سیماب پارہ طبیعت اسے کسی ایک جگہ زیادہ دیر ٹکنے نہ دیتی تھی لیکن وہ بڑا محنتی اور اچھا صحافی تھا۔جہاں بھی جاتا اپنا مقام بنا لیتا۔وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھا۔انتقال سے دوماہ قبل اس کو اسپتال میں داخل کیا گیا اور پھر وہیں یکم جنوری کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ان کا انتقال ان کی پیدائش کی تاریخ پر ہی ہوا۔اس طرح انتقال کے وقت ان کی عمر پورے 78 سال تھی۔ ہم نے ایسا عجب اتفاق پہلی بار سنا کہ کسی کا انتقال اور پیدائش کی تاریخ ایک ہی ہو۔
جنگ چھوڑنے کے بعد بھی ہمارا عزیز ناروی سے رابطہ برقرا رہا اور ہمارے درمیان نظریاتی اختلاف کے باوجود دوستانہ مراسم برقرا رہے۔ہم کراچی پریس کلب میں اکثر ملتے اورانتخابی مہم کے دوران تو روزانہ ہی ملتے۔وہ اپنے پینل اور ہم اپنے پینل کےلئے کام کرتے۔ایک ساتھ کھانا پینا کرتے۔لیکن پھر اچانک یہ رابطہ منقطع ہو گیا۔ہم بھی مصروف ہوگئے اور پھر 2012 میں امریکہ آگئے۔جون 2019 کی ایک صبح کی بات ہے کہ ہم صبح واک کر رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ہم نے کال سنی تو جانی پہچانی آواز تھی “ مولوی، میں نے تمہیں ڈھونڈ لیا” یہ آواز عزیز ناروی کی تھی۔بڑی خوشی ہوئی۔اس جنگ چھوڑنے کے بعد کے تمام مراحل کی کہانی بیان کی اور بتایا کہ وہ دوبئی میں تھا اور واپس کراچی آگیا ہے اور مختلف چینلوں کے لئے فری لانس کام کرتا ہے۔تمہارا فون اب ملا ہے تو فون کرلیا۔” جب اس کے پوچھنے پر ہم نے اس کو بتایا کہ ہم کیلیفورنیا کے ایک شہر روزویل میں رہتے ہیں تو اس نے کہا “ میرے بھی ایک بہنوئی اسی ریاست میں رہتے ہیں” اس نے ان کانمبر دیا۔اس طرح ہمارا رابطہ پروفیسر ڈاکٹر حامد کمال سے ہوا۔جو اب ہمارے نا صرف اچھے دوست ہیں بلکہ ہمارے فورم کے بھی سرگرم رکن ہیں۔اس کے بعد اس سے ہمارا رابطہ وقفے وقفے سے ہوتا رہا پھر کافی وقفہ ہوگیا۔ہم بھی سفر میں تھے۔دسمبر کے پہلے ہفتے ہم کراچی میں تھے۔ہم نے رابطہ کرنے کی کشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا اور ملاقات نا ہوسکی، جس کا ہمیں افسوس رہے گا اور اب یہ خبر ملی تو بڑا صدمہ ہوا۔اللہ تعالی عزیز ناروی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔آمین
عزیز الحق صدیقی معروف عزیز ناروی یکم جنوی ۱۹۴۵ کو الہ آباد کے ایک مردم خیز علاقے نارا میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم آبائی علاقے نارا ہی میں حاصل کی۔خاندان کے ساتھ ۱۹۵۷ میں کراچی آئے اور گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے گریجوایشن کیا۔ان کے والد احمد الحق صدیقی پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔عزیز ناروی اپنے ایک بہن اور چھ بھایئوں میں سب سے بڑے تھے۔ان کے والد کو نوح ناروی جیسے استاد الشعراء کے خاندان سے تعلق کی وجہ سے شاعری اور اردو کے بڑے بڑے شعراء سے بڑی محبت کا تعلق تھا اس لئے انہوں نے اپنے سب بیٹوں کے نام عزیز الحق صدیقی عرف شبلی، الطاف الحق صدیقی عرف حالی،جنید الحق صدیقی عرف جامی،سعید الحق صدیقی عرف سعدی،اسد الحق صدیقی عرف اسد (غالب) اور سیف الحق صدیقی عرف سیف بڑے بڑے شعراء کے ناموں پر رکھا۔ان میں سب سے چھوٹے سیف الحق صدیقی ایم کیو ایم کے ایک ٹارگٹ کلر کا نشانہ بنے تھے۔الطاف الحق صدیقی امریکہ آگئے تھے اور ان کا اور ان کے ایک اور بھائی اسد الحق صدیقی کا پہلے انتقال ہو چکا ہے۔اور اب عزیز ناروی بھی چل بسے۔ان کے ایک بھائی سعید الحق صدیقی سراکیوز نیو یارک میں رہتے ہیں اور آج کل پاکستان میں ہیں۔وہ اپنے بڑے بھائی کے انتقال کے وقت ان کے پاس ہی تھے۔ عزیز ناروی نے سوگواروں میں دو بھائی، ایک بہن، دو بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔