(تحریر ناصرہ زبیری )
پچھلے ہفتے پاکستان لٹریری فیسٹیول نے کراچی سے چل کر پہلا قدم لاہور میں رکھا – یہ فیصلہ اپنی جگہ بڑے معنی رکھتا ہے ۔ پاکستان کا دل لاہور ، زندہ دلانِ شہر کے باسیوں کا مسکن جہاں تاریخ ،ادب اور ثقافت کی کشش دُور دُور سے طلبگارِ فنونِ کو کھینچ لاتی ہے ۔
لاہور آرٹس کونسل الحمرا میں ہونے والا یہ تین روزہ جاندار اور شاندار ادب میلہ ہر لحاظ سے کامیاب تھا جس میں حالاتِ حاضرہ ، کتابوں کی رُونمائی ، شاعری اور رقص و موسیقی کا حصہ بدرجہ اُتم موجود رہا ۔ تقریبًا دو سو کے قریب مندوبین کے ساتھ ، درجنوں سیشن منظم طریقے سے منعقد کرنا اور تین دن تک دلچسپی کا ماحول برقرار رکھنا آسان بات نہیں ، اس کے لیے بے انتہا محنت ، منصوبہ سازی اور عقل کے ساتھ عمل کی ضرورت ہوتی ہے جو شعوری کوششوں سے ہی ممکن ہے ۔ ( تنقید براۓ تنقید والے نوٹ فرما لیں )۔
کراچی سے اپنا ہُنر مند کارواں لے کر آرٹس کونسل آف پاکستان ، کراچی کے صدر محمد احمد شاہ صاحب ، لاہور الحمرا پہنچے اور اس کی انتظامیہ بالخصوص صدر رضی الدین احمد کے تعاون سے تین دن تک یہ یاد گار میلہ سجاۓ رکھا ۔ اس کارواں کی سب سے خاص بات سندھ کے وزیرِ ثقافت سردار علی شاہ صاحب کی مکمل اور بھر پُور شرکت ہے ۔ وہ خود بہت عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر دوست اور ادب نواز بھی ہیں ۔کسی صوبائی وزیرِ ثقافت کی تین دن تک فنکاروں کی ذاتی حیثیت میں قدر دانی پہلی بار دیکھی ۔جی خوش ہُوا ۔کیا دوسرے صوبوں کے وزراۓ ثقافت تقلید کریں گے ؟
ادبی کارواں کے مسافروں میں کراچی سے کاٹ دار جملوں کے خالق انورمقصود ، اپنے خون سے بُجھے دیے جلاتے ہُوے
پیرزادہ قاسم رضا صدیقی ، صاف گوئی میں بلند آواز نُورالہدی شاہ ، ادب کے لیے ہمہ تن مصروف ڈاکٹر فاطمہ حسن، علم دوست غازی صلاح الدین اور ڈاکٹر جعفر احمد جیسے رہنماؤں کے اس کہکشاں کی روشنی میں چلنے کا شرف مجھے بھی حاصل رہا ۔قافلے کے دیگر مسافروں میں خوبصورت لب و لہجے کی شاعرہ عنبرین حسیب عنبر اور نامور مصور شاہد رسام بھی شامل تھے ۔
ایسا نہیں کہ یہ صرف کراچی والوں کی محفلیں تھیں ، پُورے پاکستان بلکہ بیروُنِ ملک سے بھی فنونِ لطیفہ کے چمکتے ستارے اپنی روشنی لے کر اس جگمگاہٹ میں اضافہ کرتے رہے ۔
شاعری کی محفل میں محترم افتخار عارف ، ڈاکٹر خورشید حسن رضوی ، محترم پیر زادہ قاسم ، محترم سردار علی شاہ ، محترم عباس تابش ، محترمہ یاسمین حمید ، محترمہ ثروت محی الدین ، محترم اشفاق حُسین ، محترمہ فاطمہ حسن ، محترم خالد مسعود ، محترم حارث خلیق ، محترمہ حمیدہ شاہین ، محترمہ صغرٰی صدف ، محترم رحمن فارس ، محترم عمیر نجمی ، محترم شوکت فہمی ، ،محترم وصی شاہ ، محترم عمار اقبال ، محترمہ صوفیہ بیدار ، محترمہ صائمہ آفتاب اور محترم اتباف ابرک شامل تھے ۔
طوالت کے خوف سے تمام نام اور موضوعات کا تذکرہ نہیں ہو سکتا لیکن چیدہ چیدہ سیشن حوالے کے طور پر تحریر میں شامل کیے دیتی ہوں ۔
شو مئی تقدیر دیکھیے کہ جس دن اس فیسٹول کا آغاز ہو رہا تھا اس دن صبح ہمارے ہر دلعزیز شاعر امجد اسلام امجد اس دنیاۓ فانی کو خیر آباد کہہ کر سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے ۔ سب صدمے کی کیفیت میں سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہو گا لیکن منتظمین نے کمال ہُنر مندی سے حالات کو سنبھالا ۔فیسٹول کی افتتاحی تقریب جس میں امجد بھائی کو بھی شریک ہونا تھا ، ان کے تعزیتی ریفرنس میں بدل گئی ۔بھاری دل سے ناظمِ پروگرام ڈاکٹر ہُما میر سمیت سب نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا ۔ان کی کُرسی پہ ان کی تصویر رکھی گئی کہ انکی جگہ لینے کی جسارت کون کر سکتا ہے ۔تقریب کے اختتامی دن بھی ایک سیشن امجد صاحب کے نام رہا جس میں محترم افتخار عارف ، اصغر ندیم سیّد، پیر زادہ قاسم ، کشور ناہید اورعرفان جاوید نے پُر نم آنکھوں اور دُکھی دل کے ساتھ اُنہیں یاد کیا ۔عنبرین حسیب نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ نظامت کا مشکل فریضہ انجام دیا ۔ امجد اسلام امجد کی ملنساری اور ان کا جاندار کام اُنہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
فیسٹول کے دوسرے دن بہت بڑے مشاعرے کی نظامت شکیل خان اور ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے کامیابی سے نبھائی ۔رحمان فارس نے کہا کہ ہم تو اپنے شہر میں ایسے بھر پُور مشاعرے کو ترس رہے تھے ۔ حیرت ، خوشی اور اطمینان کے جذبات میں لپٹا نمایاں احساس یہ رہا کہ نسلِ نو اُردو شاعری میں بے حد دلچسپی رکھتی ہے ۔ شروع میں حاضرین کی داد پر ، جوشیلا پن قدرے غالب تھا لیکن پھر مشاعرے کا اپنا رنگ جمتا چلا گیا اور اختتام تک حاضرین کی دلچسپی برقرار رہی ۔اچھے شعروں پر داد ، اہلِ لاہور کے با ذوق اور با ادب ہونے کی نشانی ہے سو بھر پُور مِلی ۔
مشاعرے کے علاوہ مصتنصر حسین تارڑ کے بھگت سنگھ پر لکھے گئے نئے پنجابی ناول “ میں بھناں دلّی دے کنگرے”
، افتخار عارف کی کُلیات “ سُخنِ افتخار “ ، سینیٹر عرفان صدیقی کی شاعری کا مجموعہ “ گُریز پا موسموں کی خوشبو” ، فواد حسن فواد کی “کُنجِ قفس “ عاصمہ شیرازی کی “ کہانی بڑے گھر کی” اور شاہد صدیقی کی “ پوٹھوہار ، خطہَ دلرُبا “ اپنی اپنی رُونمائی میں کتاب دوستوں کے لیے دلچسپی اور علم کا باعث بنیں ۔
مختلف موضوعات پر ناصر عباس نئیر ،مجیب الرحمن شامی ، فتح محمد ملک ، وجاہت مسعود ، منور سعید ، نئیر علی دادا ، کامران لاشاری ، وسعت الللہ خان ، سہیل وڑائچ ، آمنہ مفتی ، زبیر احمد ، اور رخشندہ نوید کے علاوہ بہت سے مقررین نے اپنے اپنے شعبوں اور موضوعات کے حوالے سے کھچا کھچ بھرے آڈیٹوریم میں موجود حاضرین کو استفادہ حاصل کرنے کا موقع دیا۔
معیشت کسی بھی ملک کی گاڑی کا انجن ہے ، یہ انجن کیوں سُست ہے اس پر تحقیقی تبصرے جس سیشن میں ہُوے اس میں پنجاب بینک کے صدر ، ظفر مسعود اور سابق وفاقی وزیرِ براۓ خزانہ سلمان شاہ شامل تھے ۔ اکنامکس کی طالب علم ہونے کی وجہ سے میرے لیے یہ سیشن خاص دلچسپی کا باعث بنا ۔
دیگر اہم نشستوں میں سہیل احمد کی احساس جگاتی باتیں ، بشری انصاری کی قیادت میں ان کے ہونہار کنبے سے ملاقات ، حامد میر کی با معنی گفتگو اور ہم سب کی آپا ، کشور ناہید کا تلخ و شیریں کلام قابلِ توجہ رہا ۔
اُردو کے علاوہ پنجابی اور سرائیکی زبانوں کو بھی کچھ وقت دیا گیا اور لکھاریوں نے محفلیں گرماۓ رکھیں ۔
موسیقی کے بغیر یہ زندگی بے وزن سی ہو جاتی ہے ۔ اس شعبے میں ساحر علی بگا ، سائیں ظہور اور علی ظفر کے ساتھ ساتھ یُوکرین کی کمالیہ کی پرفارمنس یادگار رہی ۔
رقص کی ملکہ ، ناہید صدیقی جو صحیح معنوں میں اعضا کی شاعری کرتی ہیں ، مرکزِ نگاہ رہیں اور اُنہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
خیال رہے کہ یہ محض تین دن کی بات نہیں بلکہ اس کے اثرات آنے والے خوبصورت ماحول میں اپنے کھلتے رنگوں کی بہار دکھلاتے رہیں گے ۔
الحمرا ، لاہور کے روحِ رواں ذوالفقار یعنی زُلفی بھائی بہترین میزبان ہیں جو پتہ نہیں کیسے بہت ساری جگہوں پر ایک ساتھ موجود رہتے ہیں ۔ان کی بھر پُور معاونت شاملِ تقاریب رہی ۔
کراچی سے ہماری بھابھی چاند گُل کی شخصیت نے جنہیں میں “ چاند چہرہ ، ستارہ آنکھیں “ کہتی ہوں ، اپنی موجودگی سے ہم سب کو اپنائیت کی روشنی کا احساس دلاۓ رکھا ۔
قمر لدھیانوی نے کہا تھا کہ
زندگی میلہ ہے ،
میلے میں قرینہ کیسا ؟
لیکن یہ وہ منفرد میلہ تھا جس کے ہجوم میں بھی ترتیب تھی ۔اس لیے کوئی پُوچھے تو کہنا کہ “میلے میں قرینہ” ایسا”
اور اگر کوئی پُوچھے کہ اس فیسٹول کی سب سے قابلِ تحسین بات کیا تھی تو میرے خیال میں بہت بڑی تعداد میں نوجوان اور جوان نسل کی بھاری نمائیندگی تھی ۔ ہر قسم کے سیشن میں حاضرین کی تعداد مثالی رہی اور تمام ہال بھرے رہے ۔ علامہ اقبال پر سنجیدہ گفتگو میں بھی ان کی دلچسپی برقرار رہی تو اُمید پختہ ہُوی کہ ذرا سے نم کی فراہمی اس زرخیز مٹی سے کیسے کیسے باغ اُگا سکتی ہے ۔اس سیشن کی کامیابی میں ڈاکٹر ضیا الحسن ، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر نعمان الحق اور جسٹس ناصرہ اقبال کی علمی گفتگو کا اہم حصہ ہے ۔
اس فیسٹول کے میڈیا پارٹنر جنگ گروپ کی کاوشیں بھی نمایاں رہیں جس کے پیچھے یقیناً ان کے روحِ رواں سرمد علی کا ہاتھ اور نیوز کوریج ٹیم کی محنت ہے ۔
زندہ باد اہلِ لاہور !
مجھے فخر ہے کہ میری جڑیں اس شہر میں ہیں لیکن یہ فخریہ جذبات یہیں تک محدود نہیں کہ میری شاخوں کی آبیاری اسلام آباد کی خوشگوار ہواؤں میں جبکہ پھولنے پھلنے کا موسم مجھے ہر طرح سے کراچی کی دوستانہ فضاؤں میں حاصل رہا ہے ۔ سارے شہر ہمارے ! پاکستان پائیندہ باد!
پاکستان لٹریچر فیسٹول کا اگلا پڑاؤ بلوچستان کا خوبصورت ساحلی شہر گوادر ہے ۔ خدا ہمارے بھائی احمد شاہ اور انکی ٹیم کی محنت ، لگن اور توانائی صحت کے ساتھ قائم رکھے اور اسے بھی کامیابی سے ہمکنار کرے ( آمین)
اس تین روزہ فیسٹول میں کئی سیشن اور ناموں کا ذکر رہ بھی گیا ہے لیکن یقیناً وہ سب اپنی جگہ اہم ہیں ۔
کراچی واپس آتے ہُوے خبر ملی کہ آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ضیا محی الدین نہیں رہے ! اک چراغ اور بُجھا! حق مغفرت کرے!