عمومی طور پر ترقی سے مراد آرکیٹیکچر منصوبوں کی تکمیل یعنی بلند و بالا عمارتیں، شاہراہیں اور پل وغیرہ سمجھا جاتا ہے لیکن جو ترقی یافتہ خوش حال معاشرے ہیں وہاں ترقی کے لیے تعمیرات کے ساتھ فکری تعمیر بھی ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔ادب و ثقافت، تہذیب و تمدن اور فنون لطیفہ،طنزومزاح کی مضبوط عمارتوں کی تعمیر کے بغیر سمنٹ سریے کی عمارتیں مکان تو ہو سکتی ہیں گھر نہیں بن سکتی۔ بد قسمتی سے ہم نےلٹریچر کو نظر انداز کر کے مکانات کی تعمیر پر توجہ دی اور اسی کو ترقی سمجھ کر آگئیں بڑتے گئے۔ آج مکانات تو بہت ہیں لیکن بہت لوگ گھر کی تلاش میں ہیں۔ افتخار عارف نے بھی اسی سوچ کے تحت کہا تھا!
"مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے ”
ہمارے معاشرے میں مکان تو تعمیر ہو ریے ہیں، جب کہ گھر اجڑ رہے ہیں۔جس معاشرے میں علم و ادب، فن و ثقافت اور ظروف کو عروج نہ دیا جائے تو معاشرے کی تمام مادی اور معاشی ترقی زوال پذیر ہی رہتی ہے۔تہذیب و تمدن معاشروں اور قوموں کی ارتقاء اور ترقی کے طور پر جانا جاتا ہے جو افراد باہمی برقرار رکھتے ہیں تو معاشرہ بنتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ کئی اکائیوں پر مشتمل ہے جن کی الک الک تہذیب و تمدن اور ثقافت ہے۔ ہر ثافت کے منفرد رنگ ہیں انہی رنگوں کو ملا کر پاکستان کا خوبصورت گلدستہ سامنے آیا۔آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کئی سال سے عالمی اردو کانفرنس کے نام سے کراچی میں پاکستان کے اس خوبصورت گلدستے کے ہر پھول کی علیحدہ علیحدہ نمائش کرتی رہی ہے لیکن ہر اکائی کا تقاضہ تھا کہ صرف کراچی میں ہی کیوں؟ یہ فلاور شو کسی اور جگہ بھی ہونا چاہئے۔ عالمی اردو کانفرنس کراچی کا برانڈ ہے اور صرف کراچی تک محدود رہنا چاہیے یہ کراچی کے شہریوں کا پرزور مطالبہ ہے۔ لہذا صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے پاکستان کی دیگر اکائیوں کے لیے "پاکستان لیٹریچر فیسٹیول ” کے نام سے نئے برانڈ کا اعلان کیا جس کی شروعات پاکستان کے دل لاہور سے کر دی گئی ہیں۔10،11،12 فروری 2023ء کو لاہور الحمرا آرٹس کونسل میں ” پاکستان لٹریچر فیسٹیول ” کے نام سے ایسا میلہ سجا کہ شرکاء کی تعداد اور سیشن کی کوالٹی و کوانٹی کے حساب سے الحمراء میں گزشتہ 20 سال سے ہونے والے پروگراموں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔زندہ دلان لاہور نے ثابت کر دیا کہ لاہور لاہور ہے۔ کراچی سے آئے ہوئے سفیران فن و ثقافت کا ایسا استقبال کیا کہ لاہور کے
خوش گوار موسم کی طرح طبیعت بھی ہشاش بشاش ہو گئی۔
پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے منتظم اعلی اور کراچی آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ کہتے ہیں! ” معاشرے کی تعمیر نو اور گھروں کی آباد کاری کا بیڑا اٹھایا ہے اور اس کو لے کر نکل پڑے ہیں چاروں صوبوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جائیں گے اور اپنے ساتھ صاحب علم و فراست، ادیبوں،شاعروں آرٹسٹوں اور دانشوروں کو بھی لے جائیں گے عوام کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو سمجھائیں گے کہ ملک میں بدامنی اور معاشی بدحالی سے نمنٹنے کے لیے علم و ادب کو عام کرنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ جو قومیں فکری نشونما پر توجہ دیتی ہیں زوال پذیر نہیں ہوتی۔ جن کی تہذیب و ثقافت اور زبان زندہ رہتی ہے وہ مر نہیں سکتی۔پاکستان لٹریچر فیسٹیول عوام کے لیے امید کی کرن ہے لاہوریوں نے ہمت بڑھا دی کہ اس میلے کو آگئیں بڑھایا جائے لہذا، اب ہم لاہور کے بعد گوادر، مظفرآباد، پشاور، ملتان، اسلام آباد گلگت بلتستان جا رہے ہیں اس کے بعد پاکستان کے اس ان مول خزانے کو بیرون ممالک متعارف کرایا جائے گا "۔ لاہور کی الحمرا آرٹس کونسل میں تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا افتتاح جمعہ 10فروری کو شام چار بجے مرحوم امجد اسلام امجد کے لیے فاتحہ خوانی کے ساتھ ہوا، ہر مقرر نے اپنی گفتگو کا آغاز امجد اسلام امجد کو یاد کر کے کیا جن کا انتقال آج ہی صبح ہوا۔ تاہم افتخار عارف اور کشور ناہید نے پہلے سے طہ شدہ پروگرام سے ہٹ کر خصوصی خطاب میں معروف شاعر اور ڈرامہ نگار کو خراج عقیدت پیش کیا۔۔۔امجد اسلام امجد کو پاکستان لیٹریچر فیسٹیول کی مجلس صدارت میں بیٹھنا تھا، اسٹیج پر ان کی کرسی خالی رہی ،اس پر ان کی تصویر رکھی گئی۔ مہمان خصوصی سندھ کےصوبائی وزیر تعلیم و ثقافت سید سردار شاہ نے فیسٹیول کا افتتاح کیا جبکہ انور مقصود، افتخار عارف، حامد میر، نیئرعلی دادا، کامران لاشاری، جسٹس (ر) ناصرہ اقبال، کشور ناہید، ظفر مسعود، میاں فقیر اعجاز الدین، فتح محمد ملک، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی رضی احمد و دیگر اہل علم نے مجلس صدارت میں شرکت کی۔معروف ادیب افتخار عارف نے کہا کہ امجد کا شمار ہمارے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے ، اتنی محبت اور مقبولیت بہت کم لوگوں کو ملتی ہے جتنی انہیں ملی ، امجد اور عطاءالحق قاسمی کسی بھی محفل میں اہم ترین ہوتے ہیں، ہم انہیں بہت یاد کریں گے ۔” معروف شاعرہ کشور ناہید نے کہا کہ امجد نے اپنے ٹی وی ڈرامے وارث سے دنیا بھر میں پذیرائی حاصل کی، حامد میر نے حال ہی میں امجد اسلام سے ملاقات کی تھی جس میں انہیں امجد نے بتایا کہ وہ عمرہ پر گئے تھے جہاں انہوں نے اللہ کے حضوراپنے اور دوسروں کےلئے معافی مانگی ،اس دوران حامد میر نے سامعین سے کہا کہ امجد اسلام کے اس فعل سے سبق سیکھیں اور دوسروں کو معاف کردیں۔اس موقع پر سندھ کے صوبائی وزیر تعلیم و ثقافت سید سردار علی شاہ نے کہا کہ ہم بہت کچھ کھو چکے اب ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں رہا، ہم صوفیاء کی سرزمین سندھ سے لاہور سے محبت لے کر آئے ہیں ، سچل سرمست، لعل شہباز قلندر اور بھلے شاہ کی شاعری میں جو پیغام ہے اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے، پنجاب حکومت ایسے لوگوں کی سرپرستی کرے جو صوفیائے کرام کے امن کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔صدر آرٹس کونسل کراچی محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالہ میں کہا کہ لاہور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے مشہور شہر ہے اس کے شاندار استقبال پر بہت خوش ہوں۔،ہمارے معاشرے میں بہت نفرتیں ، جھگڑے ہیں ، ہمیں ادب اور ثقافت کو ترقی دے کر ان نفرتوں کو ختم کرنا ہے اور ہم تمام اکائیوں میں بھائی چارہ، امن اور دوستی کا پیغام لے کر لاہور آئے ہیں تاکہ پاکستان کے نوجوانوں کو ادب اور ثقافت کے ساتھ جوڑیں۔انہوں نے کہا کہ لاہور،ملتان اور سندھ ایک ہی انڈس تہذیب کا حصہ ہیں تاہم لاہور قدیم ثقافتی شہر ہے جس کی اپنی تاریخی و تہذیب ہے، لاہور کے دوستوں کا اصرار تھا کہ عالمی اردو کانفرنس کی طرز پر لاہور میں بھی ایک کانفرنس منعقد کی جائے، ہم نے پاکستان لٹریچر فیسٹیول متعارف کرایا جس کو ہم پورے پاکستان کی اکائیوں میں لے کر جارہے ہیں ۔صدر آرٹس کونسل کا کہنا تھا کہ کسی حکومت کے پاس بھی علم و ادب پر خرچ کرنے کے لیے پیسہ نہیں لیکن ہم سندھ حکومت کے شکرگزار ہیں کہ وہ اس فیسٹیول پر رقم خرچ کررہی ہے” ۔لاہوریوں نے پاکستان لیٹریچر فیسٹیول کو دل سے خوش آمدید کہا تین روز کے دوران لگ بھگ ستر ہزار سے زائد افراد نے اس فیسٹیول میں شرکت کی جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ لاہور کی بڑی سڑکوں اور چوراہوں کو پوسٹرز اور بینروں جب کہ الحمرا آرٹس کونسل کو بینرز اور جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ملک کے معروف پبلشر اور کتب فروشوں نے ہر ہال کے سامنے کتابوں کے اسٹال لگائے جن میں لوگوں نے گہری دلچسپی لی۔ ۔سوشل میڈیا کے کارکن اور بلاغر ادیبوں دانشوروں شاعروں کے انٹرویو کرتے رہے۔جب کے الیکٹرانک چینلز کے معروف اینکرز حامد میر، عاصمہ شیرازی، اور دیگر نے خصوصی پروگرام نشر کئے۔ پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی الحمرا ہال ون بھر چکا تو صدر آرٹس کونسل کراچی احمد شاہ نے پروگرام باضابطہ شروع ہونے سے قبل ہی خطاب کیا۔انہوں نے اپنا تعارف آپ کرایا اور کہا! ” میں احمد شاہ ہوں” ہال میں موجود سامعین نے کھڑے ہو کر تالیوں سے ان کا خیرمقدم کیا اور کافی دیر تک تالیا بجاتے رہے۔افتخار عارف اور انور مقصود پنڈال میں داخل ہوئے تو ہال میں موجود نوجوانوں نے زوردار تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔دونوں لیجنڈ نے اپنے شان دار استقبال پر مسرت کا اظہار کیا اور ہاتھ ہلا کر سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ انور مقصود اپنے خاص انداز میں سامعین کو کافی دیر تک دیکھتے رہے اور پھر بولے ” میرے نوجوانوں یہ ملک تمارا ہے” سامعین تالیاں بجاتے رہے جب تک انور مقصود اور افتخار عارف اپنی نشستوں پر نہ بیٹھ گئے۔ تین روز کے دوران پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے 50 سے زائد سیشنز ہوئے جس میں تفریح، مزاح ، موسیقی، رقص کے علاوہ ادب، تعلیم، معیشت، کتابوں کی تقریب رونمائی، ملک کے معروف دانشوروں اور فنکاروں کے ساتھ گفتگو اور دیگر سنجیدہ سیشن بھی شامل کیے گئے ۔ہر سیشن میں حاضری دیدنی تھی اور پروگرام میں ہر ہال بھرا رہا۔پہلے روز افتتاحی تقریب کے علاوہ ” اکیسویں صدی کے تہذیبی چیلنج ، پاکستان اور فکراقبال” کے عنوان سے مذاکرہ ،سینئر اداکار سہیل احمد جو عزیزی کے نام سے معروف ہیں، کے ساتھ ایک دلچسپ بات چیت ہوئی ، جس کے بعد معروف گلوکار علی عظمت اور سائیں ظہور کے ساتھ ایک خوبصورت میوزیکل شام منائی گی،
11فروری کا آغاز صبح 11 بجے ہال نمبر 2 میں “اردو فکشن میں نیا کیا ؟” کے عنوان سے سیشن ہوا اور رات تک 24 سیشن منعقد ہوئے ” احمد بشیر کا کنبہ” ” لاہور پر کمال” مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ ’’میں بھناں دلی دے کنگرے‘‘ کے عنوان سے ایک اہم گفتگو بھی ہوئی، ” نوجوانوں کے نام ” حامد میر کا پروگرام، معروف اداکار شان کے ساتھ بات چیت،” ٹی وی پاکستانی سماج کا ترجمان ؟” “پاکستانی آرٹ کے 75 برس ” اور شاعری کا ذوق رکھنے والوں کےلئے عالمی مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا۔نوجوانوں کے پسندیدہ شاعر علی زریون اور معروف میزبان واداکار یاسر حسین کی گفتگو بھی فیسٹول کا حصہ رہی ۔ بچوں کا ادب اور مختلف کتابوں کی تقریب رونمائی ، فن مصوری کی نمائش بھی ہوئی۔ دوسرے روز کا اختتام پاکستان کے نامور گلوکار علی ظفر اور یوکرین کی معروف گلوکارہ کمالیہ کی پرفارمنس سے ہوا ۔تیسرے روز 12فروری کو صبح گیارہ بجے ہال نمبر تین میں ’پنجاب کی لوک داستانیں ‘ کے عنوان سے سیشن سے آغاز ہوا۔ شاہد ندیم کی کتاب ’’مزاحمتی ڈرامے‘‘ تعلیم ، موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوعات پربھی فکری سیشنز فیسٹول کا حصہ رہا۔ افتخار عارف، فواد احمد فواد ، اخلاق احمد ، حارث خلیق (شاہد صدیقی ) ، عرفان صدیقی سمیت مخلتف مصنفین کی کتابوں کی تقریب رونماء بھی شامل رہی ۔ فواد احمد فواد کی کتاب کنجھے قفس کی تقریب رونمائی میں مسلم لیک ن کی قیادت شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق، سردار ایاز صادق اور دیگر نے شرکت کی
“انورمقصود کا پاکستان ” انور مقصود کی گفتگو پر فیسٹیول کا اختتام ہوا۔طنز و مزاح کے بادشاہ انور مقصود نے کہا! ” مجھے یقین نہیں تھا کہ اس کانفرنس میں اتنے نوجوان آئیں گے لوگ کہتے تھے کہ پاکستان کے نوجوان کا ادب سے تعلق نہیں رہا آج آکر دیکھیں کتنے ہزار نوجوان اس کانفرنس میں آئے ہیں۔ لاہور میں پھولوں کی آمد آمد ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اس مرتبہ لاہور والے الیکشن کی انتظار میں ہیں لیکن الیکشن ہوں گے بھی نہیں یہ بات کوئی نہیں جانتا نہ الیکشن کمیشن نہ حکومت نہ عدالت۔ الیکشن کمیشن کے ساتھ تو کمیشن لگا ہوا ہے” ۔انہوں نے کہا! ” ان تین دنوں میں، میں نے لاہور کے نوجوانوں کے چہروں پر مسکراہٹ اور چمک دیکھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ جمہوریت میں جو بھی حکومت ہو ہمیں ان کی حفاظت کرنا چاہیے کیوں کہ وہ ہماری حفاظت نہیں کر سکتے ۔ احمد شاہ نے سنجیدہ گفتگو کرنے نہیں بولایا لیکن حالات ایسے ہیں کہ ہنسنے ہنسانےکا دل نہیں کرتا۔امیر پریشان ہیں ڈالر مہنگاہ ہو گیا غریب پریشان ہے روٹی مہنگی ہو گئی۔ پاکستان نمک پیدا کرنے میں نمبرٹو ہے لیکن نمک حرام پیدا کرنے پر نمبر ون ہے۔ والڈ بنک نے حکمرانوں سے کہا کہ اثاثے بتاو، ایک زمانے میں حکومت نے یہی فیض احمد فیض سے پوچھا تھا”۔انہوں نے کہا آخر میں زیرہ نگاہ اورفیض کی دو نظموں پر گفتگو ختم کی۔
زیرہنگاہ کی نظم کا پہلا مصرہ”سنا ہے جنگل کا بھی کوئی دستور ہوتا”