ضلع ملیر ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاسی پنڈتوں کے زیر اثر رہا ہے اور پیپلز پارٹی کے گڑھ کے طور پر شناخت رکھتا ہے تو دوسری جانب مختلف مافیاز کے حوالے سے بھی نمایاں شہرت کا حامل ہے ماضی میں پاکستان اسٹیل ملز سے لوہے، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے علاوه چاندی کی چوری بھی بااثر چور مافياز کا روز گار رہی ہے تو بعض پولیس افسران کی مالی ترقی کا وسیلہ بھی قرار دیا جاتا ہے سرکاری اراضی پر قبضے ، غیر قانونی تعمیرات اور خرید و فروخت کے علاوه ریتی بحری چوری کے حوالے سے بھی ضلع ملیر سندھ میں ہی نہیں وفاق میں بھی خاصی شناخت رکھتا ہے ماضی میں ریتی بحری چوری کا دهنده اس قدر منافع بخش اور عروج پر رہا ہے کہ گڈاپ تھانے کے sho کی تعیناتی کیلئے آئی جی سندھ یا وزیر اعلیٰ سندھ کی بجائے وفاق کے اہم اور طاقتور سیاستدانوں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی تھی گڈاپ میں ریتی بحری مافیا نے ملیر کی اربوں روپے مالیت کی زرعی زمینوں کو تباه کرکے سیکڑوں کسانوں کا معاشی قتل کرتے ہوئے انہیں دیگر معاشی ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کردیا . اس دور میں ریتی بحری مافیاز کے خلاف آواز اٹھانا بے دست و پا جہاد سے کم تھا اس دوران سماجی ، قانون پسندی اور علاقے سے محبت کے جراثیم رکھنے والے ہر شخص کو اُس کی اوقات سے باقاعده آگاه بھی کیا جاتا تھا اور یہ ذمہ داری بھی روایتی انداز میں ہماری ہردلعزیز پولیس ہی ادا کرتی تھی میمن گوٹھ کے اُس وقت کے کونسلر اور اہم سیاسی و سماجی حثیت کے حامل نوجوان ڈاکٹر مولا بخش بلوچ ( ایم بی بلوچ) بھی ایک بار اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور خدائی فوجدار بن کر ہزاروں مکینوں کے ہمراہ ریتی بجری مافیاز کے خلاف جہاد شروع کردیا اس کا نتیجہ یہ نکلہ کہ ریتی بحری کا گھناونا دهنده تو زور و شور سے جاری رہا تاہم پولیس نے کمال جادوگری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکھن کے علاقے میں قائم انکے کلینک سے ہیروین کی بھاری مقدر ناصرف برآمد کرلی بلکہ انکی گرفتاری کے بعد رہائی کا پروانہ اس شرط پر دیا گیا کہ وہ اپنے حق حلال کے دھندے تک محدود رہیں اور بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے کا کردار ادا کرنے سے گریز کریں ضلع ملیر لینڈ مافیا کے حوالے سے بھی خاصی شہرت رکھتا ہے قائد آباد سے گھگھر پھاٹک تک اربوں کھربوں روپے مالیت کی سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے فروخت کیے گئے سکھن ندی تک بیچ کھائی، غیر قانونی رہائشی سوسائٹی اور گوٹھ قائم کردئیے گئے اور سائیں سرکاری نے لینڈ مافیاز کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ناصرف انکی مدد کی بلکہ لیز کی سہولت بھی فراہم کردی دلچسپ امر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے محنت کشوں کیلئے قائم کی گئی اہم رہائشی اسکیم شاہ لطيف ٹاؤن کے کئی سیکڑز تک قبضہ کرکے گوٹھ بنا دیئے گئے محنت کی کمائی سے قانونی طریقے سے شاه لطيف ٹاؤن میں لیز پلاٹ خریدنے والے شہریوں کے پلاٹوں پر مافیاز نے کھلے عام قبضے اور تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا جو آج بھی جاری ہے اور ہزاروں الاٹیز آج بھی مالکانہ حقوق اور تمام دستاویزات رکھنے کے باوجود تھانے ، پولیس افسران کے دفاتر اور عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں اور سیکڑوں اس جدوجہد میں اگلے جہان کوچ کر چکے ہیں لینڈ مافیاز سکھن ندی اور برساتی نالے تک بیچ چکے ہیں اور اس اہم فریضے کی بدولت کوئی ارب پتی بن گیا تو کوئی منتخب رکن اسمبلی ، مضرصحت گٹکے کے حوالے سے بھی ضلع ملیر خصوصی اہمیت رکھتا ہے شاہ لطیف تھانے کی حدود میں کسی بھی کیبن سے آپکو پان سگریٹ ملے نہ ملے آپکا گٹکا ضرور دستیاب ہوگا دوسری جانب پاکستان اسٹیل ملز تو بند ہو گئی مگر آج بھی مرده اسٹیل ملز کو نوچنے کا سلسلہ جاری ہے ماضی میں سلطان کباڑیہ اسٹیل ملز کے لوہا چوروں کا بے تاج بادشاہ تصوّر کیا جاتا موصوف اسٹیل ملز میں ایک معمولی بس ڈرائیور کے طور پر ظاہری خدمات سرانجام دیتا تھا لیکن وہ جس قیمتی کار میں ڈیوٹی پر جاتا تھا وہ اسٹیل ملز کی بس سے ہی نہیں اسٹیل ملز کے افسران کی گاڑیوں سے بھی زائد مالیت کی تھی سلطان کباڑی نے پاکستان مشین ٹول فیکٹری کے سامنے ایک بڑا گودام قائم کر رکھا تھا جہاں اسٹیل ملز سے چوری کے لوہے سے بھرے ٹرک دن دیہاڑے کھلے عام لائے جائے تھے ایک چور گروہ رمضان عرف رمضانی کی زیر قیادت کام کرتا تھا جو لوہے کے ساتھ چاندی بھی چوری کرتے تھے اس گروہ کا ایک اہم کارندہ فوجی نامی چاندی چوری کرتے ہوئے اسٹیل ملز کے سیکورٹی اہلکاروں جام موت حاصل کرگیا جبکہ رمضان عرف رمضانی کورنگی صنعتی ایریا کی ایک فیکٹری لوٹتے ہوئے پولیس مقابلے میں اگلے جہان کوچ کرگیا ، چور مافیا ، پولیس افسران اور سہولت کاروں کے چہرے تو تبدیل ہوگئے کارنامے اور روایت تبدیل نہیں ہوئی حال ہی میں اسٹیل ملز سے لوہا، تانبا اور دیگر دھات کی چوری میں اچانک تیزی آگئی تو ایڈیشنل آئی جی کے انتہائی قریبی اور خصوصی مراسم کے حامل کے طور پر شہرت رکھنے والے Dsp بن قاسم اور sho بن قاسم اور اسکے سرپرستوں کے درمیان بھتے کے بٹوارے کی جنگ شروع ہوگئی متعدد معرکوں میں Dsp بن قاسم جیت گئے متعدد ایس ایچ اوز اور انکے سہولت کار ہار گئے تاہم Dsp بن قاسم کے مخالف پولیس افسران نے بھی ہمت نا ہاری اور آخر کار ضلع ملیر کے حال ہی میں دوسری مرتبہ اہم عہدے اور اختیارات پر برجمان ہونے والے پولیس افسر نے بن قاسم تھانے کے ایک پولیس اہلکار کی مخبری کی خدمات کے طفیل ایک اہم تانبا چوری کو دو ساتھیوں اور ساز و سامان کے ساتھ حراست میں لے لیا فوری طور پر اہم ملزم کا ویڈیو بیان ریکارڈ کیا گیا جس میں ملزم نے ناصرف چوری کا اقرار کیا بلکہ sho اور DSp بن قاسم کو معقول رقم کی باقاعده ادائیگی کی روادات بھی سنائی بس پھیر کیا تھا ملزم کے ویڈیو بیان کو ڈی آئی جی ، ایڈیشنل آئی جی اور آئی جی صاحبان کو بھجوانے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی وائرل کرایا گیا اور پولیس کے مذکوره گروپ کو sho کے بدلے DSp کو ہٹانے کا سودا مہنگا نہیں پڑا ایک تو بااثر DSP سے جان چھوٹ گئی دوسری 28 لاکھ مالیت کے تانبے سے بھری گاڑی بطور مال غنیمت اور دو ملزمان کی رہائی کے عوض 8 لاکھ روپے نقدی بھی حاصل ہوگئی دوسری جانب DSP بن قاسم کے سرپرست اعلیٰ نے بھی کمال وفاداری نبھائی اور اُسے فوری طور پر DSP سرجانی تعینات کردیا گیا ملیر کے مافیاز نے جہاں اربوں روپے کمائے وہاں کئی پولیس افسران کو تو نوازا ہی نوازا عام پولیس اہلکار تو کیا بعض ان پڑھ اور جاہل سپاہی بھی کروڑ پتی بن گئے ضلع ملیر نے منشیات فروشی میں بھی خوب نام کمایا ماضی میں شہر قائد کا منشیات کا سب سے بڑا اڈہ بھی قائد آباد تھانے کی حدود میں قائم رہا جہاں ہزاروں مرد ، خواتین اور بچے طویل قطار میں کھڑے ہو کر منشیات خریدتے تھے ضلع ملیر کے باسیوں کو ہر قسم کے مافیاز کی سہولت تو ہمیشہ حاصل رہی نہیں ملا تو نوجوانوں کو روزگار نہیں ملا ، بنیادی سہولیات سے قاصر رہے نا انصافی کا طوق گلے میں ڈالے بھٹکتے رہے شائد یہی یہاں کے مکینوں کا نصیب ہے جو شائد وہ سائیں سرکار کو ووٹ دیکر خود حاصل کرتے ہیں جب دیانت دار پولیس افسران، عوامی خدمت گار شخصیات اور انصاف کا ترازو رکھنے والی عدلیہ اور معزز جج صاحبان بااثر مافیاز کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو میرے جیسا عام صحافی اور آپ کیا کر سکتے ہیں سوائے درد محسوس کرنے کے ……
یہ تیرا ظلم، حدیں، پار کر گیا آخر
میں، مر رہا ہوں، خدا کو بتانے والا ہوں
امیرِ شہر، مرا صبر، دے گیا ہے جواب
میں، بددعا کے لیے، ہاتھ اُٹھانے والا ہوں