اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)پاکستان کے بیرونی قرضوں کا انبار بڑھ رہا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر 10 برس کی کم ترین سطح پر جارہے ہیں جبکہ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس میں کمی کے لئے سی پیک کے ذریعے برآمدات بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا ہے تاکہ مالی دباوکم کیا جاسکے۔ انہوں نے چائنہ اکنامک نیٹ ورک کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ سی پیک فریم ورک کے تحت ہمیں بجلی گھر اور سڑکیں ملی ہیں جن کی پاکستان میں بہت ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں بجلی کو دوگنا کردیا تاہم صنعتی پیداوار اور برآمدات کو دوگنا نہیں کیا.مفتاح اسماعیل کے مطابق قرض کا مسئلہ گزشتہ بیس تیس برس سے ہے۔ حالیہ برسوں میں سیلاب نے پاکستان کو مستقل اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ قرضوں کی واپسی ضروری ہے لیکن اس سے ملک کا قرض مزید بڑھ جائے گا۔انہوں نے چائنہ اکنامک نیٹ ورک کو بتایا کہ پاکستان 50 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے،ایک پاکستانی اوسطاً ڈھائی لاکھ روپے کا مقروض ہے اور اس کا آدھ حصہ غیرملکی کرنسی میں ہے۔ اس میں زیادہ تر چین کے علاوہ دیگر ممالک سے ہےجو ملک کا بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے والا ایک بڑا ادارہ ہے۔انہوں نے کہا کہ چین نے بنیادی ڈھانچے پر کام کیا ہے وہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے اور یہ پاکستان کی معیشت کےلئے بہت اچھا ثابت ہوا ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ چینی کمپنیاں پاکستان آئیں اور یہاں اپنا کاروبار شروع کریں، اور ہم مل کر دوسرے ممالک کو سامان برآمد کرسکیں اور پاکستان کے مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں مدد کر سکیں۔ انہوں نے پاکستان کے پہلے آل سٹیل ریڈیل ٹرک/بس ٹائر پلانٹ کی مثال دی جو پاکستانی اور چینی کمپنیوں کے مشترکہ طور پر نوری آباد میں لگائے گئے ہیں، جہاں پانچ سے دس فیصد مصنوعات پاکستان میں فروخت ہوں گی، اور نوے فیصد برآمد کی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ چینی کارخانوں کو یہاں کھولنے کے لیے آسان مواقع فراہم کیے جائیں تو ہمارے لوگوں کو روزگار ملے گا اور برآمدات بڑھیں گی تاکہ ہم کچھ زرمبادلہ کما سکیں اور قرضہ واپس کر سکیں۔