اسلام آباد(کورٹ رپورٹر ) اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نےالیکٹرانک میڈیا کیلئے قانون سازی کی ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی سیکرٹری اطلاعات شاہیرہ شاہد اور سیکرٹری قانون عدالت میں پیش ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت اطلاعات اور وزارت قانون کے رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ جمعے تک کا وقت ہے جو کر سکتے ہیں تو کریں ورنہ فیصلہ دے دوں گاآپ اگر نہیں کر سکتے تو وزیرقانون اور وزیراطلاعات کو طلب کر لیتا ہوں اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ عدالت ہدایات دے گی تو ہم ان کیمطابق کام کر لیں گے جس پر عدالت نے کہا کہ وزارت قانون اور وزارت اطلاعات ختم کر دیں اگر سارا کام عدالتوں نے کرنا ہے پھر کہا جاتا ہے کہ عدالتیں ایگزیکٹو کے کام میں مداخلت کرتی ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ ایگزیکٹو اپنا کام کرتا ہی نہیں آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ عدالت ہدایت دے گی تو ہی کام کریں گے؟ایسا ہے تو پھر میں نے جو لکھنا ہوا لکھ دونگا پھر کوئی شکوہ نہ کرے جس پر سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ کارروائی جاری ہے جس پر عدالت نے کہا کہ آج وزارت اطلاعات کو اطلاع دینے کیلئے ایک نئی وزارت قائم کرنے کا حکم دے دیتا ہوں میڈیا کو چوتھا ستون کہا جا رہاہے اور صحافیوں کو آپ بنیادی حقوق تک دینے کو تیار نہیں؟اسٹیک ہولڈر یہ صحافی ہیں جن کو تنخواہ نہ ملے تو لاکھ لاکھ روپے کے پیچھے ٹریبونل جاتے ہیں الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کیلیے تو ایسا فورم بھی موجود نہیں تھا اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ ہمیں تھوڑا وقت دے دیں، ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کرونگا جس پر عدالت نے کہا کہ میں 2031 میں ریٹائر ہو رہا ہوں تب کی تاریخ دے دوں؟پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو اپنا کام کریں تو یہ چیزیں ادھر آئیں ہی نہیں اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا کو پیمرا دیکھتا ہےکونسل آف کمپلینٹس کو اختیار دیا ہے کونسل آف کمپلینٹس کو اختیار دینے کی کابینہ سے منظوری لے لی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ وہ آپ لوگ غلط کر رہے ہیں آپ تو بالکل ہی ایک اور سائیڈ پر چلے گئے ہیں آپ نے کابینہ کو بھی مس گائیڈ کیا ہےایسا نہیں کرنا چاہیے تھاالیکٹرانک میڈیا کیلئے قانون سازی کر کے ایک الگ سے فورم بنا دینا چاہیے یہ کیسز تو عدالتوں میں آنے ہی نہیں چاہئیں حکومت کو یہ کام خود کر دینے چاہئیں دو چار پانچ لاکھ روپے کیلئے ورکرز دھکے کھا رہے ہوتے ہیں ہمارا سسٹم کیسے کام کرتا ہے سب کو معلوم ہے، ورکرز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر آپ اس حوالے سے کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تو واضح بتا دیں حامد میر صاحب نے کہا تھا کہ اس قانون سازی میں میڈیا مالکان کا پریشر آئے گا آج یہ نظر آ رہا ہے کہ میڈیا مالکان کا پریشر لیا جا رہا ہے اس موقع پر عدالت نے سیکرٹری اطلاعات سے مکالمہ کیا کہ سٹیک ہولڈرز کا نہیں بلکہ ورکرز کا خیال رکھیں ورکرز ہونگے تب ہی تو سٹیک ہولڈرز ہونگےمیڈیا چوتھا ستون ہے، اس میں کام کرنے والے لوگوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جانا چاہئے یہ بہت بنیادی حق ہے اگر نہیں دینا چاہتے پھر تو وزارت اطلاعات اور وزارت قانون کو ختم ہی کر دیں سیکرٹری انفارمیشن اور سیکرٹری قانون تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے انہیں ان درخواستوں کا آج ہی علم ہوا ہے انفارمیشن منسٹری کو علم نہیں تو انکی انفارمیشن کیلئے نئی منسٹری کھول لیتے ہیں اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ کونسل آف کمپلینٹس کو اختیار دیا ہے سزا کے طور پر لائسنس تک منسوخ ہو سکتا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ پیمرا اب تک جتنے لائسنس منسوخ کر چکا ہے اسی طرح یہ بھی کریگا اس موقع پر حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ کونسل آف کمپلینٹس کے ممبران خود میڈیا اداروں کے ملازمین ہیں وہ ملازمین تو وہی فیصلہ کرینگے جو پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن چاہے گی جس پر عدالت نے کہا کہ صرف میڈیا مالکان ہی سٹیک ہولڈرز کیوں ہیں کیونکہ انکے پاس پیسہ ہے اگر سٹیک ہولڈر صرف مالک ہے تو آئی ٹی این ای سمیت سب کچھ ختم کر دیتے ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت کو یہ بل دو دن بعد پارلیمان کے ہونے والے اجلاس میں پیش کیا جاتا ایگزیکٹو اگر اپنا کام کر رہی ہو تو اس درخواست کو یہاں لانے کی ضرورت ہی نہیں تھی اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر قاضی رضوان سیکرٹری حسین احمد عدالت میں پیشعدالت نے وزارت اطلاعات وزارت قانون کو مہلت دیتے ہوئے سماعت اگلے جمعے تک ملتوی کردی