اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )خصوصی عدالت نے 17 دسمبر 2019 میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین شکنی کے مقدمے میں آرٹیکل 6 کامجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت دینے کا حکم سنایا تھا۔جسٹس سیٹھ وقار کی سربراہی میں سنگین غداری کیس سننے والی خصوصی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 کا جرم ثابت ہوتا ہے، اس لیے خصوصی عدالت پرویز مشرف کو سزائے موت کو حکم دیتی ہے۔ اکثریتی فیصلہ پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف چیف جسٹس جسٹس وقار سیٹھ اور لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد فضل کریم نے دیا جب کہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذرمحمد نے فیصلے سے اختلاف کیا۔پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سابق وزیراعظم نوازشریف کے دور حکومت میں دائر کیا گیا، خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی جس کے بعد خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نو ہوئی، ججز بدلتے رہے، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل، جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے یہ مقدمہ سنا اور سنگین غداری کیس خصوصی عدالت میں 6 سال تک چلتا رہا جس کے دوران مجموعی طور پر 125 سماعتیں ہوئیں۔31 مارچ 2016 کو فرد جرم عائد ہونے کے موقع پر پرویز مشرف عدالت میں موجود تھے مگر پھر بیماری کی وجہ سے پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ عدالت نے کئی بار پرویز مشرف کو پیش ہونےکا موقع فراہم کیا جس کے بعد خصوصی عدالت نے 19 جون 2016 کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دے دیا، اس سے قبل خصوصی عدالت میں دوران سماعت استغاثہ نے پرویز مشرف کے ساتھ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو بطور شریک ملزم شامل کرنے کی درخواست کی جو عدالت نے مسترد کر دی اور ریمارکس دئیے کہ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے۔پرویز مشرف کے وکیل رضا بشیر نے ایک بار پھر پرویز مشرف کو 342 کا بیان دینے کا موقع مانگا تو عدالت نے کہا کہ وہ یہ موقع بارہا فراہم کر چکے اب وہ وقت گزر چکا ہے، اشتہاری کا کوئی حق نہیں ہوتا جب تک وہ خود کو عدالت کے سامنے سرنڈر نہ کرے، عدالت نے سماعت میں وقفہ کیا جس کے بعد سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔