اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران ارکان کو بتایا گیا ہے کہ عوام بھوک سے مر رہی ہے حکومت سیاسی انتظامی کاروائیاں کر رہی ہیں، محسن نقوی وزیر اعلی ہوگا تو صرف انتقامی کاروائیاں ہونگی ،ئی جا رہی ہے۔اپوزیشن اراکین نے ایوان سے وا ک آو¿ٹ کردیا ۔ جمعہ کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا۔ وقفہ سوالا ت کے دوران وزیر توانائی خرم دستگیر نے ایوان کو بتایا کہ کے الیکٹرک تھر میں خود پلانٹ لگائیں تاکہ کراچی کے شہریوں کو سستی بجلی مل سکے کے الیکٹرک کے ذمہ بہت بڑے رقم واجب الادا ہے کے الیکٹرک کے ساتھ تنازعات کے لئے ٹاسک فورس بنائی گئی ہے ٹاسک فورس کے متعلق واضح ڈیڈ لائن موجود نہیں ہے پہلی ترجیح کے الیکٹرک کی قانونی بحالی ہے کے الیکٹرک کے ساتھ 2015 سے معاہدہ نہیں ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ کچھ وزراءکو پابند کریں کہ ہمیں انہیں دیکھنے کا شرف تو حاصل ہو۔ ملک میں براہ راست سرمایہ کاری میں کمی کیوں نہیں آئی،بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ کرونا بتائی گئی ہے مگر اس دوران کرونا تو موجود نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ لوگوں کے بل آجاتے ہیں بجلی نہیں آتی،33 سے 58 فیصد تک ایف ڈی آئی نیچے چلا گیا،عمران خان کی حکومت میں ایف ڈی آئی اوپر جا رہی تھی ،روس اور یوکرین کی لڑائی کو بیچ میں لے آتے ہیںان کی وجوحات ناقابل قبول ہے،کوئی ایک ٹھوس وجہ بتا دیں کہ ایف ڈی آئی کیوں نیچے گئی؟ مرتضی جاوید عباسی نے کہا کہ چند ممالک جن سے تجارتی تعلقات ہیںان کے ساتھ غیر ملکی سرمائیکاری کم ہونے کے کئی اسباب ہیں ،کوڈ اور یوکریں جنگ کی کی وجہ سے بھی ٹریڈ اور سرمایہ کاری کم ہوئی۔ ایف ڈی آئی میں مسلسل کمی کے انکشاف پر تحریری جواب میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے دوران جولائی سے دسمبر تک غیر ملکی سرمایہ میں 58.7فیصد تک کمی آئی۔ روان مالی سال جولائی سے دسمبر تک 460.9ملین امریکی ڈالرز غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی،مالی سال 2021-22میں غیرملکی سرمایہ کاری ایک ارب 86کروڑ78لاکھ تھی۔ سال 2020-21مئں غیر ملکی سرمایہ کاری 1ارب82کروڑ روپے تھی۔ وقفہ سوالا ت کے دوران سینیٹر بحرامند تنگی نے سوال کیا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ہائیڈرو الیکٹرسٹی ڈیموں کی تعمیر پر اب تک ہونے والی پیشرفت کی منصوبہ وار تفصیلات کیا ہیں؟ ابھی تک نو فیصد کام ہوا ہے اگلے سال مکمل ہونا تھا اب کیسے مکمل ہونگے؟ جس پر وزیر مملکت سعادت اعوان نے کہا کہ سارے ڈیمز اپنے وقت پر مکمل ہوجائیں گے ان ڈیمز سے بجلی بھی بنائی جاسکے گی یہ کوئی گھر نہیں جو دو ماہ میں مکمل ہوجائیں گے۔ سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ حکومت کی ایک ترجیح ہے کہ سیاسی مخالفین کو کچلا جائے آئے روز ایک نئی کہانی دیکھتے ہیں ،پرویز الہی، شیخ رشید، شندانہ گلزار اور عمران ریاض یہ چوبیس گھنٹے کی مثالیں ہیں یہ کہتے ہیں زبان ہو گفتار نہ ہو انسان ہو مگر کردار نہ ہو آج نام کی حکومت ہے اخلاقی اتھارٹی نہیں وزیروں کا امبار ہے کام نہیں ہے بنک ہے پیسے نہیں الیکشن کمیشن ہے الیکشن نہیں ہے ہر لفظ میں توہین کا پہلو ڈھونڈا جا رہا ہے یہ ملک کے ماحول کو سیاسی پستی میں لے کر جا رہے ہیں جس طرح فواد چوہدری کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر چادر ڈال کر پیش کیا گیا فواد چوہدری کی بیٹیاں سکول نہیں جا رہی جیل جا رہی ہیں اعظم سواتی کے گھر میں بچیوں سے پوچھیں ان پر کیا گزری شرم سے ڈوب مر و ۔حکومتی بنچوں سے شہزاد وسیم کے الفاظ پر احتجاج شروع ہو گیا جس کے بعد اپوزیشن ارکان بھی اپنے بنچوں پر کھڑے ہو گئے ۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ایک طرف عوام بھوک سے مر رہی ہے حکومت سیاسی انتظامی کاروائیاں کر رہی ہیں اگر کوئی بیوی کو جھڑک بھی دے تو مقدمہ بنا دیا جاتا ہے ۔مقدمہ بعد میں ہوتا ہے اٹھا پہلے لیا جاتا ہے شیخ رشید کی مثال سامنے ہے پرویز الہی پانچ ماہ کے لئے اقتدار میں آیا اور پانچ سال کے برابر کام کیا محسن نقوی وزیر اعلی ہوگا تو صرف انتقامی کاروائیاں ہونگی وفاق اور صوبہ مل کر انتقامی کاروائیاں کی جا رہی ہیں ۔مونس الہی اور اس کی بیوی پر مقدمہ قائم کیا گیا راسخ الہی اور اس کی بیوی پر مقدمہ قائم کیا گیا حکومت گھر کے بچوں پر بھی انتقامی کاروائیوں کر رہی ہے عوام کے کام کرنے پر کاروائیاں کی جا رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین پر بھی مقدمے قائم کئے جا رہے ہیں وہ مقدمات جن کھ ثبوت موجود تھے ان سے یہ اپنے آپ کو صاف کروا رہے ہیں چوہدری پرویز الہی کے وکیل کو اغواءکر کیا ہے وکیل کا جرم یہ ہے کہ وہ پرویز الہی کا وکیل ہے قانون کی دھجیاں آڑائی جا رہی ہے۔اپوزیشن اراکین کی جانب سے واک آوٹ کیا گیا جس پر چیئرمین سینیٹ نے حاجی ہدایت اللہ کو ناراض اراکین کو منانے کے لیے بھیج دیا لیکن سینیٹر حاجی ہدایت اللہ اپنی نشست پر براجمان رہے اور کہا کہ ہم کیوں منانے کے لیے جائیں، ان کا رویہ دیکھیں۔