پشاور (نمائندہ خصوصی )وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پشاور دہشت گردی اور سیکیورٹی لیپس کی تحقیقات ہونی چاہیے،
قوم واقعہ پراشک بار ہے اور سوال کرتی ہے چند سال قبل ختم کی گئی دہشت گردی کے بعد یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟،خیبر پختونخواہ کو دیے گئے 470 ارب روپے کہاں گئے، اس کا احتساب اورآڈٹ ہونا چاہیے،یہ وقت کی ضررورت ہے کہ تمام سیاسی قیادت اور مذہبی زعما اپنے تمام اختلافات بھلا کر مل بیٹھیں، اس کی ذمے داری لیں، اس کا مقابلہ کریں،ماضی میں دہشت گردی کا بہادری اور عظیم قربانیوں کے ساتھ مقابلہ کیا گیا، اب بھی اس کا مقابلہ کیا جائے گا، خیبر پختونخواہ کو دیے گئے 470 ارب روپے کہاں گئے، اس کا احتساب ہونا چاہیے، اس کا آڈٹ ہونا چاہیے،آئی ایم ایف وفد وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو بہت ٹف ٹائم دے رہا ہے،معاشی مشکلات کے باجود بھی وفاقی صوبوں کے ساتھ ہے ،ہر طرح سے مدد کریں گے، سی ٹی ڈی کو مضبوط کریں گے۔جمعہ کو یہاں ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے آغاز پر وزیر اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 30 جنوری کو پشاور میں دہشت گردی کا ہولناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک دہشت گرد چیک پوسٹ سے گزرتا ہوا پولیس لائنز میں داخل ہوا اور مسجد میں جا پہنچا اور سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ایک اور اندوہناک واقعہ پیش آیا۔شہباز شریف نے کہا کہ اس واقعے کے بعد پوری قوم اشک بار ہے اور سوال کرتی ہے کہ چند سال قبل ختم کی گئی دہشت گردی کے بعد یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور کیسے گزشتہ چند ہفتوں اور مہینوں میں صوبے میں دیگر اس کے واقعات رونما ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے حوالے سے جو بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا وہ قابل مذمت ہے، یہ واقعہ اور اس حوالے سے سیکیورٹی لیپسز کی تحقیقات ہونی چاہیے تاہم یہ کہنا کہ یہ ڈرون حملہ تھا یا بے جا الزامات کی بات کی گئی وہ غیر مناسب ہے۔انہوں نے کہا کہ قوم اس وقت یہ سوچ رہی ہے کہ دہشت گردی کے ناسور پر کیسے قابو پایا جائے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، یہ وقت کی ضررورت ہے کہ تمام سیاسی قیادت اور مذہبی زعما اپنے تمام اختلافات بھلا کر مل بیٹھیں، اس کی ذمے داری لیں، اس کا مقابلہ کریں۔انہوںنے کہاکہ ماضی میں دہشت گردی کا بہادری اور عظیم قربانیوں کے ساتھ مقابلہ کیا گیا، اب بھی اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں حق بات کرنی ہوگی، تنقید برائے تنقید سے بچنا ہوگا، اگر یہ واقعہ خدانخواستہ کسی سازش کا حصہ تھا تو ماضی قریب میں پیش آنے والے واقعات کس سازش کا حصہ تھے، یہ دہشت گردی کا ایک واقعہ تھا اور اسے کچلنے کے لیے ہم ہمیں بغیر وقت ضائع کیے اقدامات کرنے ہوں گے۔انہوںنے کہاکہ اس طرح کے واقعات کے بعد یہ طعنہ ملتا تھا کہ وفاق ہمارا ساتھ نہیں دے رہا، این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والے اربوں روپے کہاں گئے، پنجاب میں سی ٹی ڈی، فرانزک لیب، سیف سٹی بنائی گئی تو یہاں کیوں نہیں بنائی گئی۔انہوں نے کہا کہ وسائل فراہم کرنا وفاق کی ذمے داری ہے، وسائل کے حوالے سے صورتحال آپ کے سامنے ہے، آئی ایم ایف کا وفد اسلام آباد میں بیٹھا ہے اور وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو بہت ٹف ٹائم دے رہا ہے، اس وقت میں تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا، صرف اتنا کہوں گا کہ اس وقت ہمارا معاشی چیلنج ناقابل تصور ہے، ہمیں آئی ایم ایف کی جو شرائط پوری کرنی ہیں، وہ تصور سے بالاتر ہیں لیکن مجبور ہے کہ ہمیں وہ تمام شرائط لازمی پوری کرنی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان معاشی مشکلات کے باجود بھی وفاقی صوبوں کے ساتھ ہے اور ان کی ہر طرح سے مدد کریں گے، سی ٹی ڈی کو مضبوط کریں گے، چاروں صوبے پاکستان وفاق کی اکائیاں ہیں، ہمیں ساتھ مل کر چلنا ہے۔انہوں نے کہا کہ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کو دیے گئے 470 ارب روپے کہاں گئے، اس کا احتساب ہونا چاہیے، اس کا آڈٹ ہونا چاہیے، یہ پیسا سیکیورٹی کی مد میں تھا، اگر اس پیسے کا آدھا بھی اس مد میں خرچ کیا جاتا تو صوبے کے عوام سکون کی نیند سوتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔شہباز شریف نے کہا کہ دہشت کا کوئی مذہب، دین، ایمان اور ملک نہیں ہوتا، پاکستان اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، اس وقت ہمیں اپنے اختلافات کو ایک سائیڈ پر رکھ کر سیاسی قیادت کو آگے بڑھنا ہوگا اور آئینی ادارے جب تک مل کر کام نہیں کریں گے تو بات آگے نہیں بڑھے گی۔وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا، ہمیں اتحاد قائم کرنا ہوگا، بغیر قول و فعل میں یکسانیت کے ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے، ہمیں پوری قوم کو اکٹھا کرنا ہوگا، اگر اس وقت ہم نے یہ نہ کیا تو پھر تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے میں نے تمام جماعتوں کے رہنماو¿ں کو اس ایپکس کمیٹی اجلاس کے لیے بھی اور منگل کے روز ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے لیے بھی دعوت دی تاکہ قومی اہمیت کے معاملے پر اتفاق رائے قائم کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جن دہشت گردوں نے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا، انہیں تو دوبارہ آباد کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں اور ملک کی تقدیر کو بہتر کرنے کے لیے آپ ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس کا دہرا معیار نہیں چلے گا، میں نے ملک و قوم کے مفاد میں یہ قدم اٹھایا اور امید ہے کہ آگے سے نفی میں جواب نہیں آئے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے کسی علاقے میں دہشت گردوں کا قبضہ نہیں ہے، وہ ادھر ادھر جاتے ہیں، پھرتے ہیں لیکن ان کا ایک انچ پر قبضہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی سوال ہے کہ وہ یہاں کس طرح سے آئے، کون ان کو یہاں لے کر آیا، کس طرح سے عجلت میں انہیں حصہ بنایا گیا، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب قوم جاننا چاہتی ہے۔اس موقع پر وزیراعظم نے پشاور دھماکے میں شہید ہونے والوں کے لیے فی کس 20 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے فی کس 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔اجلاس میں وفاقی وزرا ، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ ، آزاد جموں کشمیر کے وزیراعظم ، سیکیورٹی فورسز ، پولیس کے حکام اور اعلیٰ سرکاری افسران شریک ہوئے۔