اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی جانب سے پیش کئے گئے ایکسز ٹو میڈیا (ڈیف اینڈ ڈمپ) پرسن بل2022 زیر بحث آیا۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے بل سے متعلق قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ ممبران کو بل میں ورڈنگ کے حوالے سے معمولی خدشات تھے جن کو دور کردیا گیا ہے۔خصوصی افراد کیلئے یہ بل لایا گیا ہے۔ایسے لوگ ڈرامہ نہیں دیکھ سکتے، خبریں نہیں دیکھ سکتے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔بل میں جو ترمیم کی گئی ہے وہ معمولی نوعیت کی ہے۔آپ اس قانون پر عمل درآمدکرانے میں مدد کریں گے۔بل میں لفظ ”ڈمپ“کو نکال دیا گیا ہے۔ممبران میں سننے کی حس سے محروم ایک فرد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔دو سینیٹرز اور دو قومی اسمبلی کے اراکین بھی ممبران میں شامل ہوں گے۔سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات نے کہا کہ وزارت اطلاعات ونشریات کو بل پر کوئی اعتراض نہیں۔چیئرمین پیمرا نے بھی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پیمرا کو بھی بل کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ہم اس بل کو متفقہ طور پر پاس کرتے ہیں۔قائمہ کمیٹی نے ایکسز ٹو میڈیا(ڈیف اینڈ ڈمپ) پرسن بل 2022 کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
سینیٹر عرفان صدیقی کی جانب سے ریڈیو پاکستان کے راولپنڈی کے دفتر میں درختوں کی کٹائی کے معاملے پر قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بحث ہوئی۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ معلومات کرنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ متعلقہ حکام کے مطابق مالی بحران کے باعث درخت کاٹے گئے ہیں لیکن وجہ نہیں بتائی گئی۔درختوں کے معاملے میں تو پی ٹی آئی چیمپئین ہیں اور درخت لگانا عمران خان کا بہتر اقدام تھا۔درختوں کے رقبے کے لحاظ سے پاکستان دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔قائمہ کمیٹی کا فرض ہے کہ اس معاملے کی جانچ کرے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ درخت کٹنے کے قابل تھے، اگر عمران خان وزیراعظم ہوتے تو ان کو بھی لکھتا کہ اس معاملے کا وہ نوٹس لیں۔سینیٹر عرفان صدیقی نے پی بی سی کی طرف سے درختوں کی کٹائی سے متعلق رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کتنے درخت کاٹے گئے، درخت جو کاٹے گئے وہ کن اقسام کی تھے اور ان کی مارکیٹ ویلیو کیا تھی یہ سب تفصیلات کمیٹی کے ساتھ شیئر کرنا ضرروری ہے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے معاملے کی جانچ پڑتال کیلئے اگلی میٹنگ میں ای پی اے اور پنجاب کے ماحولیاتی ادارے کے حکام کو طلب کرلیا۔ ڈی جی پی بی سی نے کہا کہ ابھی دو ہفتے پہلے ڈی جی پی بی سی کا چارج سنبھالا ہے۔اس وقت ادارے کا مالی بحران 1922 ملین کا ہے جبکہ 22 ملین کا اس سال کا شارٹ فال ہے۔کچھ درخت بہت پھیل گئے تھے، ٹرانسمیشن اور سیکیورٹی کے مسئلے تھے اس وجہ سے درخت کاٹے گئے۔اس وقت پی بی سی کے 58 یونٹس ہیں جس میں 25 یونٹس نے جواب دیا اور آکشن کیلئے 21 یونٹس کیلئے اشتہار دیا گیا ہے۔پی بی سی راولپنڈی دفتر میں 100 درخت کاٹے گئے جن کی مالیت 7 لاکھ ہے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینئراینکرپرسنز اور صحافیوں کے خلاف مقدمات کامعاملہ بھی زیربحث آیا ہے۔ اینکر پرسنز عمران ریاض، ارشد شریف، کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے جبکہ اینکر پرسن صابر شاکر اور پی ایف یو جی کے نائب صدر لالہ اسد پٹھان نے بذریعہ زوم کمیٹی اجلاس میں شرکت کی۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ آزادی صحافت پر حملے ہو رہے ہیں قد غن لگائی جا رہی ہے۔چینلز کے نمبر تبدیل ہو رہے ہیں مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔صحافیوں کے تحفظ کیلئے بل پاس کیا گیا ان رولز پر عمل درآمد ابھی تک کیوں نہیں ہوا۔اینکر پرسن عمران ریاض نے کہا کہ مجھے نوٹسز مل رہے ہیں پیشی کے، 28 تاریخ کو پیش ہونا تھا اور نوٹس 31 کو ملا تاکہ میں پیش نہ ہو سکوں اور میرے خلاف ایکشن لیا جائے۔ڈرون کیمرے سے میرے گھر کی ویڈیوز بنائی گئیں۔پولیس نے بھی میرا گھر گھیرا لیکن میں نکل گیا، پولیس والے نے مجھے کہا کہ آپ نکل جائیں ورنہ گرفتار کرلیں گے۔ٹھٹھہ میں 502 کی دفعہ لگائی گئی جو کہ صرف حکومت لگا سکتی ہے، مدعی عاشق علی ہے جس کے خلاف منشیات کے 16 مقدمات ہیں اور عدالت نے اسکا شناختی کارڈ بلاک کرایا ہے۔مقدمہ وہ درج کیا گیا جو صرف ریاست کرا سکتی ہے۔نواب شاہ میں میرے خلاف دوسرا مقدمہ ہے، تیسرا مانسہرہ میں،کسی صوبائی حکومت نے ا نکوائری نہیں کرائی کہ یہ جعلی مقدمات کون کروا رہا ہے۔ہائی کورٹ سے ضمانت ملی ہے، جمعہ کو پیشی ہے، مجھے کہا گیا کہ اسلام آباد نہیں چھوڑنا ورنہ گرفتار کر لیں گے۔عالمی تنظیمیں ہم سے تفصیلات مانگ رہی ہیں، پاکستان کا امیج متاثر ہوگا ہمیں مجبور نہ کریں کہ یو این میں جائیں۔
اینکر پرسن ارشد شریف نے کہا کہ سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور پنجاب کے آئی جیز کو کمیٹی میں بلائیں کہ 505 کی دفعات کیوں لگائی گئی پینل کوڈ کے تحت۔سیالکوٹ، لاہور، ملتان میں اے آر وائے کو بند کیا گیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی، کیبل آپریٹر نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی۔کمیٹی سے گزارش ہے کہ آپ منتخب نمائندے ہیں آپ فیصلہ کریں، آپ سے انصاف کی امید ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ کسی کا نقطہ نظر مجھ سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن کیا اپنی رائے کیلئے دوسرے کا گلا گونٹ دیا جائے یہ جبر ہے۔رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے جب مجھے پکڑا گیا یہ سارے میرے ساتھ کھڑے تھے کیونکہ سوال اظہار رائے اور قلم کا تھا۔اس مسئلے پر میں صحافیوں اور ان اینکر پرسنز کے ساتھ ہوں۔نائب صدر پی ایف یو جے نے کہا کہ اے ار وائے کے اینکرز کے خلاف کل 8 مقدمات ہیں۔باہر ممالک میں چینلز کسی نہ کسی پارٹی کی سائیڈ لیتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔یہ کونسی جمہوریت ہے جس میں ایسے مقدمات لگائے جا رہے ہوں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ چیئرمین پیمرا کے مطابق ان صحافیوں کے خلاف کوئی ایکشن ہی نہیں لیا گیا جس پر چیئرمین پیمرا نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس سے پیمرا کا تعلق نہیں ہے، پیمرا چینلز کے اندرونی انتظامیہ کے معاملات میں عمل دخل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔جو ذمہ دار ہیں تو ان کو بلائیں۔نائنٹی ون کیبل کا ہمیں بتایا گیا اور ان کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے چیئرمین پیمرا سے گزشتہ تین ماہ کی چینلز کی نمبرنگ کی تفصیلات طلب کرلیں۔
اینکر پرسن صابر شاکر نے کہا کہ چیئرمین پیمرا کیبل آپریٹرز کو چینل کی بندش کاحکم نہیں دے سکتے۔ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں کہ جہاز سے اٹھا لیں گے، ارشد شریف، اے آر وائے اور چینل کے مالک سلمان کو عبرت کا نشان بنادیں گے۔ میری اور ارشد شریف کی زندگی خطرے میں ہے۔سینیٹرعرفان صدیقی کو بھی اس وقت کی حکومت نے نہیں اٹھایا تھا۔ کل تک محب وطن تھے آج دشمن ہو گئے۔مجھے شرمندگی ہو رہی ہے کہ کس ملک میں رہ رہے ہیں کیا یہ جمہوریت ہے۔
سینیٹرعون عباس نے کہا کہ پیمرا بھی اس معاملے میں بے بس ہیں، سیکریٹری اطلاعات کا بھی کوئی کام نہیں۔اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں ہر ہفتے کمیٹی بلائیں، آئی جیز اور ہوم سیکریٹریز کو بلائیں۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ جمہوریت آزاد صحافت کے بغیر پروان نہیں چھڑتی۔ارشد شریف کا معاملہ میرے لئے حیران کن نہیں ہے۔بلوچستان میں سیاست دانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔صحافی کا بھی کسی جماعت کی طرف جھکاؤ ہو سکتا ہے۔ہر چینل کی اپنی پالیسی ہوتی ہے یہ ان کا حق ہے۔ شائستہ زبان میں تنقید برائے اصلاح ہونی چاہئے۔چاروں صوبوں کے آئی جیز کو بلائیں، معلومات کرائیں کہ جس شخص نے ایف آئی آر کاٹی وہ کون ہیں؟ کس کے کہنے پر یہ کیا ہے؟ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کو انصاف اور حفاظت فراہم کریں۔جو بھی اقدامات اٹھائیں گے ہم ساتھ ہیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اس ایشو کے اوپر میں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ساتھ ہوں یہ قومی مسئلہ ہے۔ہم ان کا دفاع کریں گے، جو بھی کمیٹی طے کرے گی ہم ساتھ ہیں۔ اپنے آپ کو خوش کرنے کیلئے سب کو بلائیں لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ یہ نہیں کرسکتے۔اصول بنائے کہ ہم ہر آواز کو سنیں، آواز کو بند کرنے کی بات نہیں ہونی چاہئے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ صحافیوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے ان کا پرسان حال کون ہے؟ پیمرا کو بھی نہیں پتہ، وزارت کا کیا جواب ہے، صحافیوں پروٹیکشن بل کے رولز ابھی تک نہیں آئے۔سیکرٹری وزارت اطلاعات نے کہا کہ ہیومن رائٹ نے اس بل کے حوالے اے ایکشن لینا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آزادی صحافت پر جو حملہ ہے اس میں وزارت کیا کرے گی۔ اینکر پرسن ارشد شریف نے کہا کہ شکایت کنندہ کو کمیٹی میں بلائیں ہم اخراجات برداشت کریں گے اور ان سے یہ کمیٹی پوچھے۔اس حوالے سے کوئی قانون سازی کرنی چاہئے، تاکہ کل کو صحافیوں کو تحفظ حاصل ہو۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 5.5 سیکشن تو حکومت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔چیئرمین کمیٹی نے طویل بحث کے بعد معاملے کو اگلی میٹنگ تک موخر کرتے ہوئے کہا کہ اگلی میٹنگ میں وزیر اطلاعات بھی آئیں اور دیگر متاثرین کو بھی آکر سنیں گے اس کے بعد کمیٹی فیصلہ دے گی۔
چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ صحافیوں کے معاملے کا تعلق وزارت اطلاعات سے ہے،کیا آپ لوگ اس زیادتی کو تسلیم کرتے ہیں؟۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کو لکھنا چاہئے کہ اس حوالے سے ایکشن لیں۔جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ جو بھی اقدام اٹھائیں گے اس پر مشاورت کریں گے۔وزارت اطلاعات بتائیں کہ جو چینلز بندہیں ان کو بحال کریں گے۔جس پر چیئرمین پیمرا نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت کوئی چینل بند نہیں ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اشتہارات کے معاملے میں کچھ چینلز اور اخبارات کو زیادہ نوازا جارہا ہے۔جو چینلز ایک ہی کیٹیگری میں ہیں ان کے اشتہارات میں اتنی تفریق کیوں ہے۔چینلز کی بندش کی تحقیقات کروائیں۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے وزارت اطلاعات سے سات دن کے اندر 2008-2013، 2013-2018، 2018 -اپریل 2022 اور اپریل 2022 سے اب تک ٹی وی چینلز اور اخبارات کو دئیے گئے اشتہارات کا ڈیٹا طلب کرتے ہوئے وزیراعظم کے دورہ ترکی کے حوالے سے اشتہارات کی تفصیلات بھی چیئرمین کمیٹی نے طلب کرلیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ٹیکس پئیر کا پیسہ ہے صحیح جگہ خرچ ہونا چاہئے۔صحافیوں کے تحفظ کے بل پر کیوں عمل درآمد نہیں ہوا۔چیئرمین کمیٹی نے صحافیوں کے تحفظ کے بل پر جلد سے جلد عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی۔ابھی صحافیوں والا معاملہ عدالت میں ہے۔رولز کے مطابق زیر سماعت کیسز سے متعلق کمیٹی کوئی ہدایات نہیں دے سکتی۔چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری اطلاعات و نشریات سے اگلی میٹنگ میں اینکر پرسنز اور دیگر صحافیوں کے خلاف ایف آئی آرز کی تمام تفصیلات کرلیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ لوگ اپنے صحافیوں کو تحفظ دیں، وزارت داخلہ کے ساتھ صحافیوں کے تحفظ کا معاملہ اٹھائیں۔اینکرپرسنز کے معاملے کی کوئی ذمہ داری نہیں لے رہا، بلیم گیم ہو رہی ہے۔صحافیوں کے تحفظ کی ذمہ داری وزارت اطلاعات کی ہے۔
قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز عرفان صدیقی، عون عباس بپی، انور لعل دین، چاہر بزنجو اجلاس میں شریک ہوئے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا بطور موور اجلاس میں شریک ہوئے- چیئرمین پیمرا، چیئرمین پی سی بی، سیکرٹری وزارت اطلاعات ونشریات،اینکر پرسنز عمران ریاض، ارشد شریف، جبکہ اینکر پرسن صابر شاکر اور پی ایف یو جی کے نائب صدر لالہ اسد پٹھان نے بذریعہ زوم کمیٹی اجلاس میں شرکت کی