اسلام آباد /نئی دہلی (این این آئی )اقوام متحدہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ثالثی عدالت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس کے حوالے سے پانی کی تقسیم کے دہائیوں پرانے معاہدے سے جڑے تنازع کی سماعت شروع کردی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق پاکستان کے اٹارنی جنرل (اے جی)کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ تنازع بھارت کی جانب سے دریائے جہلم پر 330 میگاواٹ کے کشن گنگا منصوبے کی تعمیر اور مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر 850 میگاواٹ کے رتلے منصوبے کی تعمیر پر پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سے متعلق ہے۔ اٹارنی جنرل (اے جی)دفتر نے یہ بیان بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ طور پر ترمیم کرنے کی کوشش کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کا نوٹس لینے کے بعد جاری کیا۔بیان میں اس طرح کی کہانیوں کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ معاہدے میں یکطرفہ ترمیم نہیں کی جا سکتی، یہ ثالثی عدالت میں جاری کارروائی سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔بھارت نے پاکستان سے کہا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کو تبدیل کر کے تیسرے فریق کو تنازعات میں مداخلت کرنے سے روکے۔بھارتی حکومت کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت نے پاکستان کو معاہدے میں ترمیم کے لیے ایک نوٹس بھیجا ہے اور وہ طویل عرصے سے جاری تنازع کو 90 روز کے اندر حل کرنے کے لیے ملاقات کا خواہاں ہے۔ترامیم کی نوعیت کے حوالے سے ذرائع نے کہا کہ ترامیم اس حوالے سے ہوں گی کہ جو بھی چھوٹے چھوٹے اختلافات سامنے آسکتے ہیں انہیں کیسے کسی تیسرے فریق کی شمولیت کے بغیر حل کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ دو طرفہ معاہدہ ہے، کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔پاکستان کو اس بات پر تشویش ہے کہ بھارت کے ہائیڈرو پاور ڈیم دریا کے بہا کو کم کر دیں گے جو زراعت کے لیے اس کی 80 فیصد زرخیز زمین کو پانی فراہم کرتے ہیں، کئی برسوں تک پاکستان نے ایک غیر جانبدار ماہر اور اب ایک ثالثی عدالت کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کی درخواست کی ہے۔دوسری جانب بھارت نے پاکستان پر اعتراضات کے عمل کو طول دینے کا الزام عائد کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ اس نے کشن گنگا اور رتلے منصوبوں کی تعمیر کی اجازت 6 دہائیوں پرانے سندھ طاس معاہدے کے تحت دی ہے۔ثالثی عدالت میں پاکستان کے وفد کی قیادت ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان اسلم کر رہے ہیں، وفد میں وزارت آبی وسائل کے سیکریٹری حسن ناصر جامی اور کمشنر برائے انڈس واٹر سید محمد مہر علی شاہ بھی شامل ہیں، پاکستان کی نمائندگی برطانیہ کے بیرسٹر سر ڈینیئل بیتھلیحم سمیت دیگر کر رہے ہیں۔پاکستان نے 19 اگست 2016 کو سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے مطابق ایڈہاک ثالثی عدالت کے قیام کی درخواست کرکے قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔پاکستان نے یہ قدم 2006 میں کشن گنگا پراجیکٹ اور 2012 میں رتلے پروجیکٹ کے لیے شروع ہونے والے پرمننٹ انڈس کمیشن میں اپنے تحفظات کو سختی سے اٹھانے اور پھر جولائی 2015 میں نئی دہلی میں ہونے والے حکومتی سطح کے مذاکرات میں حل طلب کرنے کے بعد اٹھایا۔پاکستان کی جانب سے کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ اس کے تحفظات کو دور کرنے سے بھارت کے مسلسل انکار کا ردعمل ہے۔یہ معاہدہ تنازعات کے حل کے لیے دو فورم فراہم کرتا ہے، ایک ثالثی عدالت ہے جو قانونی، تکنیکی اور انتظامی مسائل حل کرتی ہے اور دوسرا ایک غیر جانبدار ماہر ہے جو صرف تکنیکی مسائل کو حل کرتا ہے۔پاکستان نے ثالثی عدالت کے قیام کی درخواست کی کیونکہ انتظامی مسائل سے جڑے سوالات کی قانونی تشریح کی ضرورت ہے۔بھارت نے پاکستان کی جانب سے غیر جانبدار ماہر کے تقرر کا جواب اپنی جانب سے تاخیر سے دائر درخواست کے ذریعے تنازعات کے حل کے رسمی عمل کے آغاز کی صورت میں دیا۔اٹارنی جنرل آفس سے جاری بیان کے مطابق پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے تنازعات کے حل کے لیے تاخیر سے درخواست جمع کرانا بھارت کی خصوصی بدنیتی کا مظاہرہ تھا۔دونوں فورمز کی کارروائی کے متضاد نتائج کے خدشے کے پیشِ نظر 12 دسمبر 2016 کو ورلڈ بینک نے ثالثی عدالت کے قیام اور غیر جانبدار ماہر کے تقرر کے عمل کو معطل کر دیا اور دونوں ممالک کو ایک فورم پر مذاکرات اور اتفاق کرنے کی دعوت دی۔پاکستان اور بھارت باہمی طور پر قابل قبول کسی ایک فورم پر متفق نہیں ہو سکے، 6 برس کے بعد بالآخر عالمی بینک نے معطلی ختم کرکے ثالثی عدالت بنائی اور ایک غیر جانبدار ماہر کا تقرر کیا لیکن اس وقت تک بھارت کشن گنگا پراجیکٹ بنا چکا تھا۔پاکستان کا خیال ہے کہ دونوں فورمز کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کے ذریعے متضاد نتائج کے کسی بھی خطرے کو روکا جا سکتا ہے، پاکستان ان دونوں کے ساتھ مصروفِ عمل ہے، اس کے برعکس بھارت نے ثالثی عدالت کا بائیکاٹ کیا ہے جو کہ یک طرفہ کارروائی کرنے کی مجاز ہے اور ایسا کر بھی رہی ہے۔