صحافی ، شاعر ، بلا کا مترجم ، پتھروں کے خواص جاننے کا آرزو مند ، ستاروں کے علم کا جویا ، اور برسوں سے گوشہ نشین اور بیمار ۔
ہم سب (مجھ سمیت ، ہم سب) کیسے حرام زادے ہیں ، یہ جاننے کے لئے نعیم ابرار کی زندگی کے آخری چند سال ہی کافی ہیں ۔ وہ اکیلا تھا ، تقریبا” معذور اور بیمار تھا ، تنگ دست تھا ، تلخ تھا ، اپنی ساری صلاحیت کے باوجود بے روزگار اور بے سہارا تھا ۔ گنتی کے چند لوگوں کے سوا ، جو اسے یاد رکھتے تھے ، باقی تو اسے کبھی کا دفن کر چکے تھے ۔
میں کل ہی دفتری کام کے لئے ملک سے باہر آیا تھا ، یہاں پہنچا تو نعیم ابرار کے رخصت ہونے کی خبر ملی ۔ خیر ، اگر ملک میں بھی ہوتا تو کیا کر لیتا ۔ یہ زندگی مصنوعی جذبات کی جگالی کے سوا کیا ہے؟ اور یہ تعلق کا ڈھکوسلا ، یہ فیس بکیانہ قربت ایک لا یعنی بکواس کے سوا کیا ہے؟
وہ روزنامہ جنگ کی نائٹ ڈیسک کا پرندہ تھا ، رفتہ رفتہ نیوز ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچ چکا تھا ۔ پھر تقدیر اسے میرے پاس ہفت روزہ اخبار جہاں لے آئی ۔ برسوں ہم ساتھ کام کرتے رہے ۔ میں ایڈیٹر تھا ، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ڈپٹی ایڈیٹر بن گیا ۔ انٹرویوز ، ترجمے ، سرخیاں ، معلوماتی مضامین ، ہر مشکل کام کرنے پر تیار ۔ اب یاد بھی نہیں کہ کتنے برس ہم ساتھ کام کرتے رہے ۔ لوگ صحافیوں کو طاقت ور اور دولت مند اور با اختیار سمجھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر صحافی متوسط طبقے کے لوگ ہوتے ہیں ۔ گزارے لائق تنخواہ ، سخت اور طویل اوقات کار ، سماجی زندگی سے دوری ، اور پریشانیوں سے ہر وقت معرکہ آرائی ۔ نعیم ابرار بھی ایسا ہی تھا ۔ اپنی بیٹی کے بہتر مستقبل اور تعلیم کے لئے فکر مند ،صحافیوں کے لئے مختص ہونے والے ہاکس بے کے پلاٹ پر گھر بنانے کا آرزو مند ۔
کچھ برس ادھر کی بات ہے ، میں نے صحافت چھوڑنے کا فیصلہ کیا ۔ بالکل اچانک ، کسی دفتری ساتھی کو بتائے بغیر ۔ دفتر سے رخصت ہونے کے دو گھنٹے بعد ہی نعیم ابرار کا فون آ گیا ۔ اس کی آواز میں پریشانی تھی ۔ اس نے فوری ملاقات پر اتنا اصرار کیا کہ میں رات کو اس سے ملنے چلا گیا ۔ انتظامیہ نے اسے نیا ایڈیٹر بنانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ یہی اس کی پریشانی کی وجہ تھی ۔ بولا "یار اخلاق صاحب ، میں نہیں چل پاؤں گا ان کے ساتھ ۔ یہ آپ نے مجھے کس مشکل میں پھنسا دیا ہے؟” میں نے اسے سمجھایا کہ یہ پریشانی نہیں ہے ، سنہری موقع ہے ۔ لوگ ایڈیٹر کے منصب تک پہنچنے کے خواب دیکھتے دیکھتے ریٹائر ہو جاتے ہیں ۔ اس جگہ کامیاب ہو کر دکھاؤ ۔ میں نے اس کی اتنی ہمت بندھائی کہ وہ راضی ہو گیا ۔
شاید چھ ماہ بعد مجھے خبر ملی کہ اسے فارغ کر دیا گیا ہے ۔ اور وہ بھی اس طرح ، کہ میرے لئے آج بھی اسے بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔ نعیم ابرار کی زندگی اس کے بعد ایک رولر کوسٹر رائڈ بن گئی ۔ میں پوری ایمان داری سے سمجھتا ہوں کہ جسے ہم کامیابی کہتے ہیں وہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ اتفاقات اور قسمت کا کھیل بھی ہوتی ہے ۔ وہ کچھ دن بعد ایک دوسرے اخبار میں چلا گیا ۔ کچھ وقت گزرا تو اس نئے اخبار نے اسٹاف کی چھانٹی کا فیصلہ کر لیا ۔ وہ پھر کئی مہینے کے لئے بے روزگار ہو گیا ۔
ایسے کئی مراحل سے گزرنے کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ وہ میرے پاس آ گیا ، ایڈورٹائزنگ کے شعبہ میں ایک جگہ خالی تھی ۔ چند ماہ گزارنے کے بعد ایک دن بولا "یار اخلاق صاحب ، ایک ٹی وی چینل سے آفر آئی ہے۔” صاف لگتا تھا کہ مچھلی پانی کے بغیر بے قرار ہے ۔ مین اسٹریم کی صحافت والا صحافتی دنیا میں لوٹنا چاہتا ہے ۔ میں نے اسے نہیں روکا ۔ بعد میں پتا چلا ، وہ چینل کے سنسر ڈپارٹمنٹ میں گیا ہے ، وہ بھی کم تنخواہ پر ۔
زندگی ایسی سفاک ہے کہ فرصت نہیں دیتی ۔ مدتوں اس کی خبر نہیں ملی ۔ یہ پتا چلتا رہا کہ وہ پھر پریشان ہے ۔ ہمارا دوست خالد حمید خان لندن سے آیا تو اس سے جا کر ملا ۔ خالد کی زبانی ہی معلوم ہوا کہ حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ پھر ایک اور قیامت ٹوٹی ۔ نعیم ابرار کو اسٹروک ہو گیا ۔ کراچی پریس کلب کے الیکشن والے دن اس سے ملاقات ہوئی تو ایک آدمی اسے سہارا دے کر چلا رہا تھا ۔ اس کی گفتگو سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ پھر کسی نے بتایا کہ اب اس کی بیوی اور بیٹی اس کے ساتھ نہیں رہتیں ۔ پھر وہ ایک معذوروں والی زندگی گزارنے لگا ۔ جو لوگ اس سے ملنے جاتے تھے ، صدمہ سمیٹ کر واپس آتے تھے ۔
کل وہ دنیا چھوڑ گیا ۔ ٹی وی چینلز پر سینئر صحافی نعیم ابرار کے انتقال کی خبریں ٹیلی کاسٹ ہوئیں جو یونین آف جرنلسٹس کا پرانا رکن تھا ، پریس کلب کا ممبر تھا ۔ بس اتنی ہی خبر تھی ۔ کسی نے پوری کہانی نہ سنائی ۔ پوری کہانی بھلا کون سناتا ہے؟ اور کون سننا چاہتا ہے؟
میں سوچتا ہوں ، میں کتنا بے حس ہوں کہ میری آنکھوں میں آنسو نہیں آئے ۔ تھوڑی دیر کی اداسی کے سوا میرے دامن میں کیا ہے؟ نعیم ابرار چلا گیا ہے اور میں یہ سوچتا ہوں ، شاید ہم سب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا ۔ کچھ دلوں میں ذرا دیر کی اداسی ، اور پھر وہی روزمرہ کی مصروفیت ۔