کراچی /اسلام آباد (نمائندہ خصوصی/بیورو رپورٹ )گندم کا بحران ختم ہونے کے بعد گزشتہ چند روز کے دوران آٹے کی قیمتوں میں کمی کے بعد اب عوام کو دالوں کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق بینک کی جانب سے متعلقہ دستاویزات کی منظوری میں تاخیر کے سبب درآمدی مال کی کلئیرنس نہ ہونے کی وجہ سے دالوں کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔کراچی ہول سیلرز گروسری ایسوسی ایشن کے چیئرمین روف ابراہیم کے مطابق ڈالر کی قلت اور بینک کی جانب سے درآمدی دستاویزات کی منظوری میں ہچکچاہت کے باعث گزشتہ دو ماہ سے 6 ہزار سے زائد دالوں کے کنٹینر کی کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے تاجروں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ہیڈ آفس کے باہر احتجاج کیا تھا۔تاجر فیصل انیس مجید نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ چنے کی دال کی ہول سیل قیمت یکم جنوری 2023 سے 180 روپے سے بڑھ کر 205 روپے فی کلو ہوگئی ہے ،یکم دسمبر 2022 کو اس کی قیمت 170 روپے فی کلو تھی۔اس کے علاوہ مسور دال کی قیمت 205 روپے سے 225 روپے ہوگئی جبکہ دسمبر 2022 میں اس کی قیمت 200 روپے تھی، اسی طرح ماش اور مونگ کی دال کی قیمتیں 315 روپے اور 225 روپے فی کلو سے بڑھ کربالترتیب 335 روپے اور 260 روپے فی کلو ہوگئی ہیں جو یکم دسمبر کو بالترتیب 288 روپے اور 200 روپے میں فروخت ہورہی تھیں۔ریٹیل مارکیٹ میں دالوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جن میں مسور کی دال 270 سے 280 روپے، مونگ کی دال 250 سے 300 روپے، ماش کی دال 380 سے 400 روپے جبکہ چنے کی دال 230 سے 260 روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔اس سے قبل جنوری 2022 میں مسور کی دال 210 سے 240 روپے، مونگ کی دال 180 سے 220 روپے ، ماش کی دال 260 سے 300 روپے اور چنے کی دال 160 سے 200 روپے فی کلو میں فروخت ہورہی تھیں۔فیصل انیس نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یکم جنوری 2023 سے بینک نے درآمدی دستاویزات کے علاوہ کارگو کی ادائیگی اور دیگر متعلقہ دستاویزات وصول کرنا بند کردیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سالانہ بنیادوں پر ایک کروڑ 50 ہزار ٹن درآمدی دالیں استعمال کرتا ہے، انہوں نے نشاندہی کی کہ بندرگاہ پر پھنسے ہوئے کنٹینرز کو روزانہ کی بنیاد پر بھاری نقصان اور شپنگ کمپنی کے بھاری جرمانے ادا کرنا پڑتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تاجروں کو رمضان میں دالوں بالخصوص چنے کی دال کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کےلئے درآمدات میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر دال کی درآمدات میں اضافہ نہ کیا گیا تو طلب اور رسد میں فرق اور قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ دالوں کی درآمد میں 45 سے 60 دن لگتے ہیں، غیر ملکی سپلائرز کا پاکستان سے اعتماد اٹھ رہا ہے اور وہ مستقل کی شپمنٹ کے لیے اپنے معاہدے معطل کررہے ہیں کیونکہ ان کے حالیہ فنڈز کراچی کی بندرگاہوں پر پھنسے ہیں