(تحریر :امتیاز متین)
گزشتہ ایک برس کے دوران پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے اس پر بہت کچھ بولا اور لکھا گیا ہے اورمشق سخن اب بھی جاری ہے۔ تاہم ہوشربا اور چشم کشا انکشافات کے باوجود نہ تو سیاسی افق پر موجود شخصیات کی صحت پر کوئی اثر پڑا ہے اور نہ ہی ان کے طرز زندگی میں کوئی فرق آیا ہے۔ آٹھ مہینے تک جاری رہنے والی بے نتیجہ سیاسی ہیجان انگیزی کے بعد شاید عام شہریوں کو اب یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ قومی افق پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے متعلق بحث کرنا بے کار ہے۔یہ بھی اچھا ہی ہے کہ ایک ایک کرکے سارے چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں۔ بس انتظار اس بات ہے کہ گناہ گاروں کا کوئی برا انجام ہوگا یا وہ ایک بار پھر بچ جائیں گے؟ شہباز حکومت کے معاشی ٹارزن کی ساکھ ایسی ہے کہ کوئی ملک اور معاشی ادارہ پاکستان کو پیسے دینے پر راضی نہیں ہے۔ اس صورتحال میں صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ پاکستان کے تمام عظیم بدعنوانوں کی دولت اور جائدادیں ضبط کرکے جیلوں میں ڈال دیا جائے۔ اور انہیں اس وقت تک جیل میں رکھا جائے جب تک بیرون ملک چھپائی دولت پاکستان منتقل نہ کر دی جائے اور جائدادیں ریاست پاکستان کی ملکیت میں نہ دے دی جائیں۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ پاکستان میں ایسا ہو سکتا ہے تواسے خوابوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آجانا چاہیے۔

گزشتہ سال اپریل میں حکومت کی اچانک تبدیلی اور اسے کے نتیجے میںعام شہریوں کے مابین شروع ہونے والے سیاسی اختلاف رائے ، سیاسی کارکنان اور صحافیوں پر ہونے والے تشدد اور قتل کی وارداتوں کے بعد ملک میںتنائو بہت بڑھ گیا تھا۔ اس تنائو کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ مہینوں کے دوران جس طرح سرکاری قوت کا استعمال کیا جا رہا تھا اس کے لیے آرمی چیف جنرل باجوہ کو مورد الزام قرار دیا جارہا تھا۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ انہوں نے وفاقی حکومت کی تبدیلی محض اپنے عہدے کی مدت میں توسیع کے لیے کروائی تھی۔بہرحال وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اور بے شمار دولت حاصل کرنے کے باوجود قومی سطح پر بے عزت ہو کرریٹائر ہو گئے۔
جنرل باجوہ کی رخصتی کے بعد قومی سطح پر پائے جانے والے ذہنی دبائو میں بہت بڑی کمی ضرور ہوئی ہے۔ اب پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد خیبر پختونخواہ کی اسمبلی بھی تحلیل ہو گئی تو وفاقی حکومت کے لیے بھی زیادہ دنوں تک اپنا وجود قائم رکھنامشکل ہو جائے گا۔ اگر شہباز حکومت بھی ختم ہو گئی تو قومی سطح پر پائے جانے والے سیاسی خلفشار میں اور عام شہریوں میں پائے جانے والے اضطراب میں کمی مزید کمی ہو جائے گی۔ شہری سندھ میں ایم کیو ایم دوبارہ متحد ہونے کے باوجود فی الحال الیکشن میں جانے کے حق میں نہیں ہے ، یہی حال پیپلز پارٹی کا ہے جو رواں سال میں ستمبر اکتوبر سے پہلے انتخابات کی حامی نہیں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے علاوہ دوسری کوئی جماعت قبل از وقت انتخابات کی حامی نہیں ہے جبکہ بیوروکریسی بھی رواں سال کے آخر میں انتخابات کے انعقاد کی تیاری کر رہی ہے۔ موجودہ حالات میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں حکومتیں ختم ہونے کے بعد قومی سطح پر پائے جانے والے سیاسی ہیجان کا خاتمہ ہو جائے گا جس کے بعد عام شہریوں کے سامنے مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل رہ جائیں گے جن سے وہ عبوری حکومت کے دور میں کسی نہ کسی طرح نمٹ ہی لیں گے۔
فی الحال صورتحال یہ ہے کہ اقتدار کی رسا کشی میں ’’زندہ باد ، مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانے والے عام شہریوں کو سستے آٹے کی لمبی قطاروں میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث عام شہریوں کا ہاتھ پہلے ہی تنگ ہو چکا ہے۔ گیارہ سو ارب روپے کی بدعنوانی کے مقدمات مطلوب افراد نئی قانون سازی کے ذریعے باعزت بری کر دیے گئے ہیں۔ یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل سنگین بدعنوانیوں میں ملوث افراد پلی بار گین یا کچھ لے دے کر معاملہ صاف کروایا کرتے تھے۔ ورنہ ایمنسٹی اسکیم میں ساری چوریاں معاف ہو جایا کرتی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مقتدر قوتیں ہر دور میں سنگین بدعنوانیوں میں ملوث افراد کے لیے کوئی نہ کوئی قانونی سہولت فراہم کرتی رہی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بار بار نیب قوانین میں ترامیم اور مقدمات کے خاتمے کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ اگر وہ اسمبلی میں ہی براجمان رہتے تو ایسا ہونا مشکل ہوتا لہٰذا احتجاجی سیاست اور منظور نہ ہونے والے استعفوںکے باوجودپی ٹی آئی ارکان نے اسمبلی سے باہر رہ کر حکومتی اتحاد کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی آئینی ترامیم منظور کروا لیں تاکہ سارے بدعنوان حکمراں طبقات فائدہ اٹھائیں۔
آج اگر کوئی حکمرانوں کی عیش و عشرت کی آڈیوز اور ویڈیوز پر حیرت کا اظہار کر تا ہے تو اسے پنجاب کے ماضی اور حال پر نظر ڈال لینی چاہیے۔ لاہور کی ہیرا منڈی( ڈائمنڈ مارکیٹ) کے کنجر گھرانوں سے نکلنے والے لعل و جواہر نے ہر دور میں حکمراں طبقات کی خدمت کی ہے۔ہائی کلاس طوائفیں آج بھی اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں کے نزدیک ہیں ۔ماضی میں صدر اور وزیر اعظم کے نزدیک رہنے والی بعض ایسی خواتین تو خبروں میں بھی رہی ہیں۔ چھائونیوں میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کے بارے میں پرانی خبروں کا ذکر تو ہوتا رہا ہے لیکن قیاس کیا جا سکتا ہے کہ قومی انٹیلی جنس اداروں کے پاس ایسی تصویروں، آڈیوز اور ویڈیوزکا بڑا ذخیرہ موجود ہو گا جسے ہلکی پھلکی جھلکیاں بھی ووٹروں کو بدظن کر سکتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ووٹروں کے بدظن ہو جانے سے بھی حکمراں طبقات کو کوئی خاص فرق پڑتا نہیں ہے۔ پاکستان کا انتخابی نظام ایسا ہے کہ ووٹروں کی اکثریت اگر انتخابات کا بائیکاٹ کر بھی دے تو ہزار دو ہزار ووٹ لینے والے بھی کامیاب قرار دے دیے جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ووٹر بھی ایسے ہیں جو اپنی ذات برادری اورلسانی پہچان کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔خاص طور پر پنجاب میں تو ذات برادری کی بنیاد پرووٹ ڈالے جاتے ہیں۔
اگر شہباز شریف کے بھکاریوں والے بیان کے تناظر میں پنجاب کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے بھکاری اپنی ذات برادری کی برتری کے خبط میں مبتلا ہیں۔پنجاب میں زمینداروں کے نزدیک بے زمین افراد کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، چاہے وہ قابلیت اور شرافت کے اعلیٰ معیار پر ہی کیوں فائز نہ ہوں۔ ذات برادری کے بعد صوبوں اور شہروں کی برتری کا خناس تو فوجی افسران کی بیگمات میں بدرجہ اتم موجودہے۔ عام طور پر لاہور اور فیصل آباد کی فوجی بیگمات خود کو دوسرے شہر کے لوگوں سے افضل سمجھتی ہیں جبکہ کراچی اور اہل کراچی کو ہر لحاظ سے کمتر سمجھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی متوسط طبقے کے پڑھے لکھے مہاجروں کو اسلام آباد کا شہری سمجھا جاتا ہے ۔ فوج خود کو قومی یکجہتی کی علامت کے طور پر پیش کرتی ہے لیکن فوجی افسران کے گھروں میں احساس برتری کی جہالت کے ہوتے ہوئے یہ علامت بھی جلد ہی بے توقیر ہو جائے گی۔گو کہ پاکستان کے آئین میں تو ہر شہری کو برابر کے قانونی حقوق حاصل ہیں اور ناموس رسالت پر جان بھی قربان کرنے کے نعرے لگانے والے یہ بھول گئے ہیں کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فوقیت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر فوقیت حاصل نہ ہونے کا واضح پیغام دیا گیا تھا۔ پھر اتنے سارے فروعی تعصبات کہاں سے آ گئے؟ قصہ مختصر یہ کہ جلنے کڑھنے ، دل جلانے اور بے کار بحثوں میں الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ایسے ہی تھے اور ایسے ہی رہیں گے۔ غریب عوام صدیوں سے جس حال میں تھے وہ بھی ویسے ہی رہیں گے۔مسئلہ صرف متوسط طبقے کی پڑھے لکھے لوگوں کا ہے جو قومی معیشت کا پہیہ تو چلاتے ہیں لیکن سرکاری فیصلوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔