جنیوا( اے پی پی) حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کی مشترکہ میزبانی میں پیر کو جنیوا میں ہونے والی ’’ ریزیلیئنٹ پاکستان‘‘ بین الاقوامی کانفرنس نے عالمی معاونت کے حصول اور ملک کو2022 کے تباہ کن سیلاب کے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد کے لیے طویل مدتی شراکت داری استوار کرنے پر زور دیاہے۔کانفرنس میں حکومتوں، سرکاری اور نجی شعبوں کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کی ممتاز شخصیات نے سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے بہت بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی عوام اور حکومت کی معاونت کے لئےشرکت کی ،وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ ملک کی بدترین سیلاب کی تباہی سے بے گھر ہونے والے 33 ملین افراد کی ضروریات کو پورا کرنے اور تعمیر نو اقدامات پر زور دیا ۔پیرکو ریزیئلنٹ پاکستان پر عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں اس موقع پر اپنے ساتھ اس کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کرنے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتر س کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، کیونکہ وہ موسم گرما میں پاکستان میں آنے والی اس بڑی آفت کے دوران مسلسل پاکستان کی آواز اور ہمدرد دوست بنے رہے،اس بحران کے وقت میں سیکرٹری جنرل کی اخلاقی حمایت اور قیادت کے لیے ہم ہمیشہ شکر گزار ہیں۔ میں بہت سارے سربراہان مملکت اور حکومت کے ساتھ ساتھ وزراء اور دیگر شراکت داروں کا بھی شکر گزار ہوں جو آج ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔وزیراعظم نےکہا کہ ہم عالمی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ہیں، وسیع تبدیلی کا دور ہماری زندگیوں اور ممالک پر اس سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اگر ہم سب کو زندہ رہنا ہے تو سب کو ترقی کی منازل طے کرنے دیں۔ انہوں نے کہا کہ کثیر الجہتی سطح پر کچھ دور رس فیصلے کرنے ہوں گے، جو حقیقت میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کی گئی مداخلتوں سے کہیں زیادہ ہیں، بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی کووڈ 19وبائی بیماری، عالمی مالیاتی بحران، اور مشرقی یورپ میں تنازعات کے شدید اثرات سمیت عالمی بحرانوں میں پھنس گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موسم گرما سے پہلے پاکستان پہلے ہی خوراک، ایندھن اور معاشی بحرانوں کے ایک ناگوار سلسلے کا سامنا کر رہا تھا، اور آئی ایم ایف اور کثیر جہتی ترقیاتی بینکوں سمیت بیرونی امداد لینے پر مجبور تھالیکن یہ 2022 کا تباہ کن سیلاب ہے جس نے ہمیں ایک خطرناک کنارے پر پہنچا دیا ہے، ہمارے پورے نظام کو یہ نیا غیر متوقع جھٹکا اس کے نتیجے میں پیچیدہ اورمختلف چیلنجوں کا ایک سلسلہ لے کر آیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ مون سون کی شدید بارشوں اور سونامی نے 33 ملین افرادکو متاثر کیا، 80 لاکھ بے گھر ہوئے، 1700 سے زیادہ افراد جاں بحق ہزاروں زخمی ہوئے، 20 لاکھ سے زیادہ گھر تباہ ہوئے،سیلابی ریلوں سے 8000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں، 3127 کلومیٹر ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچا۔وزیراعظم نےکہا کہ اس آفت نے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں صحت اور تعلیم کی خدمات مکمل طور پر تباہ کر دی ہیں۔ 10 لاکھ بچیوں سمیت26 لاکھ زیر تعلیم طلباء کی تعلیم میں خلل پڑا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ آفت تاریخ کی بڑی آفات میں سے ایک ہے لیکن میں اور میرا ملک دونوں اس سے نبردآزما ہیں ، پاکستان میں یہ موسم سرما سخت ترین ہےجو درجہ حرارت سے زیادہ بڑے پیمانے پر مصائب کا ایک ایسا جزیرہ نما ہے جہاں پانی اب بھی کھڑا ہےاور لاکھوں لوگ بے گھر ہونے کی وجہ سے اس مصیبت سے آگے کی سوچ نہیں سوچ سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی ایم ایف، اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے دوست ممالک کی طرف سے پاکستان کو فراہم کی جانے والی فراخدلی کی حمایت کے لیے بے حد مشکور ہیں تاہم امدادی کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے ان حصوں میں جہاں سیلابی پانی کو اب بھی نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ فصلیں اگانے، گھر بنانے، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور اداروں اور خدمات کی بحالی کے لیے زرعی اراضی پر دوبارہ دعویٰ کیا جا سکے۔ وزیراعظم نے توقع ظاہر کی کہ غذائی عدم تحفظ کا شکار افراد کی تعداد 7 سے دگنی ہو کر 14 ملین سے زیادہ ہو جائے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں 33 ملین لوگوں کو ان کا مستقبل واپس دینے کی ضرورت ہےاور آج کی یہ کانفرنس میرے لوگوں کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا دوسرا موقع فراہم کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس اکتوبر میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یو این ڈی پی اور یورپی یونین کے ساتھ مل کرہم نے ایک ’’پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز ایسسمنٹ ‘‘(پی ڈی این اے ) تیار کیا جس میں سیلاب سے ہونے والی کل تباہی اور معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 بلین ڈالر لگایا گیا تھا جو پاکستان کی جی ڈی پی کے 8 فیصد سے زیادہ ہے جو90 لاکھ افراد کو انتہائی غربت میں دھکیل رہا ہے، یہ ہمارے لئے ایک بحالی کابڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی المیے کے اس پیمانے کے علاوہ جس کے بارے میں آپ سب نے سنا ہے، معاشی ترقی، مالیاتی جگہ اور ترقیاتی فوائد کے لیے لائف لائنز جن کی ہمیں اپنی عوامی مالیات اور ترقی کی رفتار کو سنبھالنے کے لیے اشد ضرورت تھی، وہ سب کچھ الٹ کرختم ہو گیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ ریاست نے اس تباہی کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے جن کے پاس کم وسائل تھے وہ بھی اپنا سب کچھ کھونے والوں کی مدد کے لیے آگے آئے، لاکھوں لوگوں نے اپنے بدقسمت بھائیوں اور بہنوں کو خوراک ،لباس اور پناہ دینے کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کیا۔ میری سربراہی میں ایک نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر ( این ایف آر سی سی ) قائم کیا گیا جو متاثرہ آبادی میں بڑے پیمانے پر ہنگامی امدادی سامان اور خدمات کی تقسیم کی نگرانی کرتا تھا۔اس کےلئے ایک جامع ہیلتھ پلان تیار کیا گیا، جس میں ہیلتھ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے میڈیکل کیمپ لگائے گئے۔وزیراعظم نے کہا کہ 20 ہزار فوجی جوان، سینکڑوں ہیلی کاپٹر، ہوائی جہاز اور موٹر بوٹس 24 گھنٹے امدادی کارروائیوں کے لیے متحرک رہے جنہوں نے ہزاروں جانیں بچائیں اور منقطع مواصلات کو تیزی سے بحال کیا۔ تمام لچکدار فنڈز کو 2.7 ملین سے زیادہ گھرانوں کو 400 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کی نقد گرانٹ فراہم کرنے کے لیے دوبارہ استعمال کیا گیا۔ اپنی مالی مجبوریوں کے باوجود، ہم نے ایمرجنسی کے لیے تقریباً 575 ملین امریکی ڈالر جمع کیے جن میں اقوام متحدہ کی فلیش اپیل بھی شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ اس المیے نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ کوئی بھی چیز معمول پر واپس نہیں جا سکتی اورزندگی کی بحالی کےلئے سخت ترین اصلاحات ناگزیر ہیں لیکن اس کےلئے درکار وسائل کا حجم بہت بڑا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی این اے کی تشکیل اور ترقیاتی شراکت داروں کے تعاون سے حکومت نے بحالی ، ریکوری اور تعمیر نو کے لیے ایک جامع فریم ورک پلان تیار کیا ہےجس کی وضاحت 4 آر ایف دستاویزمیں بیان کی گئی ہیں جو کانفرنس کے اگلے سیشن میں آپ کو پیش کی جائیں گی۔ انہوں نےکہا کہ دستاویز میں بحالی اور تعمیر نو کے ترجیحی شعبوں اور مقاصد کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ مالیاتی منصوبہ اور ادارہ جاتی انتظامات کے ساتھ مختصر، درمیانی اور طویل المدتی اہم شعبوں میں نافذ کیے جانے والے پروگراموں اور منصوبوں کی نقشہ سازی بھی کی گئی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ 4آرایف پلان کا پہلا حصہ بحالی اور تعمیر نو کی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے، جس میں 16.3 بلین امریکی ڈالر کی کم از کم فنڈنگ کی ضرورت کو ذہن میں رکھا گیا ہے جس میں سے نصف ملکی وسائل سے اور باقی نصف ترقیاتی شراکت داروں سے پورا کرنے کی تجویز ہے۔پلان کے دوسرے حصے میں موجودہ اور منصوبہ بند اسٹریٹجک بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ڈیزائن میں سیلاب کو موثرانداز میں روکنےجیسا کہ اہم شاہراہوں کی حفاظت، مین ریلوے لائن نیٹ ورک، دس سالہ فلڈ پروٹیکشن پلان، نیز قبل از وقت وارننگ سسٹم اور بفرنگ،انفراسٹرکچر اور مستقبل کی آفات میں ریسکیو اور ریلیف کی صلاحیت شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم ریکوری کے لیے ہمارا فنڈنگ گیپ 8 بلین امریکی ڈالر ہے اور اسے تین سال کا عرصہ درکار ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لیے شفافیت اور نگرانی کےعوامل اہم ہیں، ہم ضیا ع اور تاخیرکے متحمل نہیں ہوسکتے۔یہی وجہ ہے کہ 4 آر ایف پلان میں ایک آزاد نگرانی بورڈ، تیسرے فریق کی نگرانی کا طریقہ کار، اور منصوبے کے نفاذ میں کارکردگی اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے شکایت اور ازالے کے عمل کا بھی تصور کیا گیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ 4 آر ایف پلان کی کامیابی کا انحصار بین الاقوامی برادری کی کثیر جہتی اور دو طرفہ فنڈنگ کے سلسلے سے کافی بیرونی وسائل کو متحرک کرنے کی صلاحیت پر ہو گا تاکہ ترتیب وار منصوبوں کے بروقت عمل درآمد کو ممکن بنایا جا سکے۔ ترقیاتی شراکت داروں کے بنیادی گروپ کی جانب سے مناسب، قابل رسائی اور متوقع مالی مدد اور تکنیکی مدد کے بغیر یہ منصوبہ اپنے مقاصد کو پورا نہیں کر سکتا۔ ایک اور تکنیکی ضرورت قابل عمل منصوبوں کی تیاری کے لیے معاونت ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ پاکستان کے بدترین سیلاب کی تباہی سے نکلنے، انفراسٹرکچر کو بحال کرنے اور تیز رفتار اقتصادی ترقی کی بحالی کی صلاحیت ان اقدامات اور ان کی رفتار پر کافی حد تک منحصر ہوگی اور اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی مالی وسائل کی فراہمی ہوگی۔ اگر یہ فرق ہماری بحالی اور کم سے کم لچک کی ضروریات میں رکاوٹ بنتا رہتا ہے، تو نتائج بہت تباہ کن ہو سکتے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ کانفرنس صرف عالمی بحرانوں کی وجہ سے بنجر زمینوںمیں زندگی بھرنے اورمعاش کی تعمیر نو میں مدد کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ہم یہ بھی سیکھ رہے ہیں کہ اس بدلے ہوئے منظر نامے پر ایک سے زیادہ طریقوں سے کیسے چلنا ہے، یہ اس یکجہتی اور وژن کے بارے میں ہے جو دنیا کے پائیدار مستقبل کی طرف منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ لچکدار معاشرے تباہی کے اندھیروں میں موقع کی روشنی تلاش کرتے ہیں، یہ بالکل اسی طرح کی تذویراتی بحالی ہے جس کو میں آج شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ پاکستان کے لوگوں کی بحالی کے منصوبے کے لیے آپ کا تعاون حاصل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ بہت سے ممالک میں معاشی اور عوامی دباؤ کے اوقات ہیں لیکن پاکستان کو ایک نئے اتحاد کی ضرورت ہے، جو جانیں بچا سکے اور انہیں ذمہ دار عالمی شہریت کی راہ پر گامزن کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس مشکل چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک مستقل بین الاقوامی تعاون کے منصوبے کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ میں ان لوگوں کے لیے ایک نئی زندگی مانگ رہا ہوں جنہیں ہماری معیشت کو طاقت دینے اور 21ویں صدی میں ایک ایسے مستقبل کے ساتھ دوبارہ داخل ہونے کی ضرورت ہے جو انسانی سلامتی کو لاحق خطرات سے محفوظ ہو۔ اس نازک موڑ پر پاکستانی عوام کے ساتھ آپ کی یکجہتی اور طویل المدتی حمایت بغیر تیاری کے رہنے یا نئی امید کے ساتھ مستقبل کا سامنا کرنے میں فرق کر دے گی۔وزیراعظم نے کانفرنس کی حمایت کے لیے شکریہ ادا کرتا ہو ئے کہا کہ آپ کا یکجہتی کا عمل پاکستانی عوام ہمیشہ یاد رکھے گی۔اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تباہ کن سیلاب سے پاکستان کے بڑے حصے کو شدید نقصان پہنچا ہے، انفراسٹرکچر کی بحالی کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے، پاکستان کو تین سال کی مدت میں 16.3 ارب ڈالر کی امداد درکار ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس کے ذریعے کیش، ٹرانسفر اور دیگر طریقہ سے مدد کی جاسکتی ہے، پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کا خود جاکر مشاہدہ کیا، حالیہ…