شہزاد ملک کی
,بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لئے خصوصی رپورٹ
اسلام آباد( نیٹ نیوز)
جاسوسی اور غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کو حساس معلومات فراہم کرنے کا جرم ثابت ہونے پر فوجی عدالت سے 14 سال قید بامشقت کی سزا پانے والے پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو ڈھائی برس بعد سزا مکمل ہونے پر اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔سابق فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ نے مئی 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو سنائی گئی قید بامشقت کی سزا کی توثیق کی تھی تاہم ڈھائی برس کے ہی عرصے میں اب انھیں رہا کر دیا گیا ہے۔اڈیالہ جیل کے حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال کو اُن کی سزا پوری ہونے اور تمام قانونی تقاضے مکمل کرنے کے بعد رہا کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے فی الحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
اڈیالہ جیل کے حکام کے مطابق انھیں جو دستاویزات فراہم کی گئیں اُن کے مطابق جاوید اقبال نے 14 سال قید بامشقت کی اِس سزا کے خلاف فوجی عدالت میں اپیلیں دائر کر رکھی تھیں۔
اڈیالہ جیل حکام کے مطابق سزا کے خلاف پہلی اپیل پر اُن کی سزا چودہ سال سے کم کر کے سات سال کر دی گئی جبکہ دوسری اپیل میں اُن کی سزا میں مزید تین سال کی کمی کر دی گئی جس کے باعث ان کی سزا 14 سال سے کم ہو کر فقط سال رہ گئی تھی۔جیل حکام کے مطابق باقی ماندہ وقت میں بہتر کنڈکٹ کے باعث بھی انھیں قید میں چھوٹ دی گئی اور بلآخر سزا پوری ہونے کے بعد انھیں رہا کیا گیا ہے۔جیل حکام کے مطابق اس معاملے میں جیل مینوئل پر عملدرآمد کرتے ہوئے سزا پوری ہونے کے بعد انھیں جیل سے رہا کیا گیا۔
سابق فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ نے مئی 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو سنائی گئی قید بامشقت کی سزا کی توثیق کی تھی ۔سابق فوجی افسر پر کیا جرم ثابت ہوا تھا؟
30 مئ 2019 کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ سابق لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال سمیت دو فوجی اور ایک سول افسر پر جاسوسی کا الزام ثابت ہونے پر انھیں دی گئی قید اور موت کی سزاؤں کی (اس وقت کے) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے توثیق کر دی ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق سزا پانے والے افسران میں ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال، ایک سابق بریگیڈیئر راجہ رضوان جبکہ ایک سول افسر وسیم اکرم شامل تھے۔
بیان کے مطابق یہ افسران غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کو حساس معلومات فراہم کرنے میں ملوث تھے اور ان پر جاسوسی کا الزام ثابت ہوا جس کے بعد انھیں سزائیں دی گئیں۔
یاد رہے کہ دیگر افراد یعنی سابق بریگیڈیئر راجہ رضوان اور ڈاکٹر وسیم اکرم، جو کہ ایک حساس ادارے میں بطور انجینیئر تعینات تھے، موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ دونوں افسران فی الحال اپنی سزائیں مکمل کر رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال کون ہیں؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال اُس وقت فوج کا حصہ تھے جب جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف تھے۔ اپنے فوجی کیریئر کے دوران انھوں نے بطور بریگیڈیئر ٹرپل ون بریگیڈ کمانڈ کی تھی۔
بطور میجر جنرل وہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز جیسے نہایت اہم عہدے پر بھی تعینات رہے۔ ملک بھر میں ہونے والے فوجی آپریشنز کی منصوبہ بندی فوج کے اِسی ڈائریکٹوریٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
انھوں نے بطور لیفٹیننٹ جنرل بہاولپور کور کی کمان کی جبکہ سٹاف اپائنٹمنٹ میں وہ ایڈجوٹینٹ جنرل تعینات رہے۔ یہ فوج کا وہی شعبہ ہے جو فوج میں ڈسپلن اور احتساب کا عمل برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے اور کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں فوجی قوانین کے مطابق سزا کا تعین کرتا ہے۔
جاوید اقبال کے ہمراہ موت کی سزا پانے والے سابق بریگیڈیئر راجہ رضوان بریگیڈ کی کمان کے علاوہ جرمنی میں پاکستان کے دفاعی اتاشی تعینات رہ چکے ہیں۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ راجہ رضوان علی حیدر 10 اکتوبر 2018 کو اسلام آباد کے علاقے جی 10 سے لاپتہ ہوئے تھے اور ان کے اہلخانہ نے اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا تاہم بعدازاں عدالت کے استفسار پر وزارتِ دفاع کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ مذکورہ سابق فوجی افسر فوج کی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی جاری ہے۔
’آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘
واضح رہے کہ ملک میں کوئی بھی آئینی عہدہ رکھنے کی صورت میں، چاہے وہ فوجی ہو یا سول، متعلقہ افسر کو ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘ پر دستخط کرنا ہوتے ہیں، جس کے تحت وہ عمر بھر کے لیے پابند ہو جاتے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی خفیہ معلومات کسی بھی مرحلے پر کسی سے بھی شیئر نہیں کر سکتے۔
پاکستانی فوج میں مینوئل آف پاکستان ملٹری لا کے مطابق جاسوسی کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ سزا کا تعین فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کرتا ہے، تاہم سزا کا تعین جرم کی نوعیت پر بھی منحصر ہے۔
فوج میں ایڈجوٹینٹ جنرل کے فرائض انجام دینے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے بی بی سی کو مئی 2019 میں بتایا تھا کہ ‘بعض اوقات فوجی کا کردار براہ راست نہیں ہوتا، وہ انجانے میں معلومات شیئر کرتا ہے، معاون کے طور پر کردار ادا کر سکتا ہے، تو ایسی صورت میں سزا کچھ کم ہو سکتی ہے۔‘
’لیکن اگر وہ براہِ راست، جانتے بوجھتے حساس معلومات کے تبادلے اور ملک کے خلاف جاسوسی میں ملوث پایا جائے تو اس کی سزا موت یا عمر قید ہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ فوج کے اندر احتساب کا نظام نہایت مضبوط ہے اور ’فوج کی بقا اسی نظام کی مضبوطی پر منحصر ہے، احتساب میں رعایت نہیں برتی جاتی۔‘
خیال رہے کہ فوج میں حساس عہدوں پر تعینات تمام اہلکاروں کی ملک کی خفیہ ایجنسیاں باقاعدہ نگرانی کرتی ہیں اور جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق کسی بھی شک و شبے کی صورت میں ایکشن لے لیا جاتا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ جاسوسی جیسے واقعات فوج میں نہایت کم ہوتے ہیں اور عام طور پر فوج میں افسران یا جوانوں کو سزا دینے سے متعلق خبریں منظر عام پر نہیں آتی ہیں۔