کراچی (کرائم رپورٹر ) شہر قائد میں اسٹریٹ کرائم کا سلسلہ تھمنے کے بجائے مزید بڑھتا جا رہا ہے جب کہ گزرتے برس 2022 میں بھی عروس البلاد ڈاکووں کے ہاتھوں یرغمال رہا۔کراچی میں جان و مال کے تحفظ اور قیام امن کے حوالے سے متعلقہ اداروں سمیت حکومتی دعوے غلط ثابت ہوئے، جس کے نتیجے میں ملک کے سب سے بڑے شہر، تجارتی حب اور صوبائی دارالحکومت کے باسی یومیہ 239 اور ہر گھنٹے میں 10 وارداتوں کا سامنا کرتے رہے۔اہلیان کراچی کے ساتھ 2022 میں مجموعی طور پر 85 ہزار 948 وارداتیں ہوئیں، جن میں شہری اربوں روپے مالیت کی نقدی، اشیا، قیمتی سامان، موبائل فون وغیرہ سے محروم ہوگئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں 10 فی صد اضافہ ہوا۔ملک کے پہلے دارالحکومت اور ساحلی شہر میں تیزی سے بڑھتی جرائم کی شرح نے 2022 میں پرانے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے متعلقہ اداروں کی حکمت عملی تبدیل کی گئی، افسران بدلتے رہے، سڑکوں پر ناکے، چوکیاں، اسنیپ چیکنگ، اینٹی اسٹریٹ کرائم اسکواڈ اور شاہین فورس کو بھی میدان میں اتارا گیا، تاہم تمام منصوبہ بندہ بے سود ثابت ہوئی۔اعداد و شمار کے مطابق شہرقائد میں 2022 کے دوران اسٹریٹ کرائم کی مجموعی وارداتوں کی تعداد 85948 تک پہنچ گئی، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 10 فی صد زیادہ ہے۔ شہرمیں 2021 کے دوران اسٹریٹ کرائم کی 78 ہزار 123 وارداتیں رپورٹ ہوئی تھیں۔سیٹیزن پولیس لائژن کمیٹی کی جانب سے جنوری تا 25 دسمبر اسٹریٹ کرائم کے اعداد وشمارجاری کیے گئے ہیں، جس کے مطابق 2022 میں موٹر سائیکلیں چوری کرنے کی وارداتیں سب سے زیادہ ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق موٹرسائیکلوں کی چوری کی50 ہزار 809 وارداتیں ہوئیں۔اسی طرح 2022 میں4ہزار 877 شہریوں سے اسلحہ کےزور پران کی موٹر سائیکلیں چھین لی گئیں۔ موبائل چھیننے کی وارداتیں بھی پولیس حکام کے لیے درد سر بنی رہیں۔ رواں سال مسلح ڈکیتوں نے سرعام 28 ہزار 40 شہریوں کو ان کے قیمتی موبائل فونز سے محروم کردیا۔2022 میں کارلفٹر گروہ بھی محترک رہے، جو اس سال 2ہزار 65 گاڑیاں لے اڑے جب کہ 157 گاڑیاں شہریوں سے اسلحہ کے زور پر چھین لی گئیں۔جنوری میں موبائل فون چھیننے کی 2499 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 3908، موٹر سائیکل چھیننے کی 419، گاڑیوں کی چوری 184 اور گاڑیوں کے چھیننے کی 16 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔فروری میں موبائل فون چھیننے کی 2199 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 4081، موٹر سائیکل چھیننے کی 405، گاڑیوں کی چوری 171 اور گاڑیاں چھیننے کی 15 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔مارچ میں موبائل فون چھیننے کی 2416 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 4285، موٹر سائیکل چھیننے کی 426، گاڑیوں کی چوری 204 اور گاڑیاں چھیننے کی 16 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔اپریل میں موبائل فون چھیننے کی 2118 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 3952، موٹر سائیکل چھیننے کی 353، گاڑیوں کی چوری 181 اور گاڑیاں چھیننے کی 12 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔مئی میں موبائل فون چھیننے کی 2658 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 4454، موٹر سائیکل چھیننے کی 383، گاڑیوں کی چوری 174 اور گاڑیاں چھیننے کی 12 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔جون میں موبائل فون چھیننے کی 2600 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 4197، موٹر سائیکل چھیننے کی 456، گاڑیوں کی چوری 178 اور گاڑیاں چھیننے کی 10 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔جولائی میں موبائل فونز چھیننے کی 2154 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 3984، موٹر سائیکل چھیننے کی 393، گاڑیوں کی چوری 145 اور گاڑیاں چھیننے کی 15 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔اگست میں موبائل فون چھیننے کی 2677 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 4869، موٹر سائیکل چھیننے کی 450، گاڑیوں کی چوری 155 اور گاڑیاں چھیننے کی 12 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ستمبر میں موبائل فون چھیننے کی 2446 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 4553، موٹر سائیکل چھیننے کی 427، گاڑیوں کی چوری 169 اور گاڑیاں چھیننے کی 19 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔اکتوبر میں موبائل فون چھیننے کی 2260 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 4659، موٹر سائیکل چھیننے کی 446، گاڑیوں کی چوری 203 اور گاڑیاں چھیننے کی 8 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔نومبر میں موبائل فون چھیننے کی 2372 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 4626، موٹر سائیکل چھیننے کی 424، گاڑیوں کی چوری 145 اور گاڑیاں چھیننے کی 10 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔دسمبر کی 25 تاریخ تک موبائل فون چھیننے کی 1641 وارداتیں ، موٹر سائیکل چوری کی 3241، موٹر سائیکل چھیننے کی 295، گاڑیوں کی چوری 159 اورگاڑیاں چھیننے کی 15وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔دوسری جانب عوامی اور کاروباری حلقوں میں اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی وارداتوں اور جرائم پیشہ عناصر پر قابو پانے میں ناکامی پر متعلقہ اداروں سمیت صوبائی حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ محکمہ پولیس تمام وسائل دستیاب ہونے کے باوجود جرائم کے خلاف ناکام نظر آ رہا ہے جب کہ جرائم کی بڑھتی شرح محکمے کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر سوال اٹھ گئے ہیں