کراچی(نمائندہ خصوصی) صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے ایک ہائی پروفائل سیمینار بعنوان ”تباہ کن سیلاب ۔ بچاؤ اور آگے بڑھنے کا راستہ” کے موقع پر اپنے پیغام میں اپنے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں عملی، تفصیلی اور قابل اعتماد تخمینے؛ انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات کی تعمیر نو پر اٹھنے والی لاگت اور سیلاب متاثرین کی بحالی کی ضروریات کے اندازے پر ابھی تک وسیع پیمانے پر پیش رفت نہیں کر سکا ہے۔فیڈریشن ہاؤس میں منعقدہ ہائی پروفائل سیمینار کی صدارت کرتے ہوئے نائب صدر ایف پی سی سی آئی انجینئر ایم اے جبار نے وضاحت کی کہ حالیہ سیلاب صرف موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ نہیں تھے؛ کیونکہ وہ گزشتہ 5 دہائیوں سے بننے والی تاریخ اور پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کے بار بار ہونے والے واقعات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ اس معاملے کی سچائی یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بارش کے پانی کے انتظام کا بنیادی ڈھانچہ نہ بنا کر سیلاب کے خطرات کو کم کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔انجینئر ایم اے جبار نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ 30 بلین ڈالر کی بحالی کے تخمینوں کو اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیا جانا چاہیے اور وہ اتفاق کرتے ہیں کہ حقیقی نقصانات اس سے بھی زیادہ یا اس سے کم بھی ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مطلوبہ فنڈنگ کا بندوبست کرنے کے لیے ہمیں ڈونر ایجنسیوں اور دوست ممالک سے قابل عمل اعداد و شمار کے ساتھ رجوع کرنا چاہیے۔انجینئر ایم اے جبار نے کہا کہ 1977 میں قائم کیا گیا فیڈرل فلڈ کمیشن گزشتہ ساڑھے چار دہائیوں میں بار بار آنے والے سیلابوں سے قومی معیشت کو ہونے والے نقصانات کو کم کرنے میں قیادت اور دور اندیشی پر مبنی پلاننگ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ گیسٹ آف آنروائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر خالد ارقی نے پیشکش کی کہ کراچی یونیورسٹی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے اور پیش رفت کے لیے اسٹڈیز اور سرویز میں مدد دینے کے لیے تیار ہے۔داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (DUET) کے وائس چانسلر ڈاکٹر فیض اللہ عباسی نے جامعہ کراچی کے ان تحقیقی مطالعات کو سراہا جن میں انہوں نے بارش کے پانی کے جمع ہونے اور نکاسی کی کمی کے مسائل کے شکار پوائنٹس کی نشاندہی کی ہے جن کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔کراچی کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز نے بتایا کہ پاکستان نے اس سال مون سون کی غیر معمولی سطح کا تجربہ کیا ہے اور خبردار کیا کہ پچھلی دہائی کے رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے سالوں میں پاکستان میں مون سون کا دباؤ مزید جارحانہ رہے گا۔ایف پی سی سی آئی کی سنٹرل سٹینڈنگ کمیٹی برائے ماحولیات کے کنوینر ڈاکٹر وقار حسین نے حاضرین کو آگاہ کیا کہ پاکستان ایک کے بعد ایک قدرتی آفات کے گھن چکر میں پھنسا ہوا ہے اور ہمیں بحیثیت قوم وسیع تر قومی مفاد اپنی آنے والی نسلوں کے لیے احتیاط سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی واٹر بورڈ کے سابق ایم ڈی سلیمان چانڈیو نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارا ملک شہری منصوبہ بندی کی مہارتوں، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور پانی کی نکاسی کی انتظامی صلاھیتوں سے لیس انسانی وسائل تیار نہیں کر سکا ہے؛ کہ جو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں اور ہمیں اس مقصد کے لیے بھر پور کام کرنے کی ضرورت ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ سٹڈیز اینڈ پریکٹس کی بانی ڈائریکٹر ڈاکٹر قرۃ العین بختیاری نے کہا کہ بلوچستان میں پینے کا پانی بھی عوام کو میسر نہیں اور حالیہ سیلاب نے بلوچستان میں سینکڑوں کلومیٹر سڑکیں تباہ کر دی ہیں اور انہوں نے پا ئیدار ترقی کے لیے اصلاح شدہ جزائر بنانے کی تجویز پیش کی۔