اسلام آباد ( نیٹ نیوز ) سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے کہا ہے کہ وہ کبھی سیاست میں شمولیت اختیار نہیں کریں گے۔
جمعرات کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست میں ان کی شمولیت کے حوالے سے باتیں بالکل غلط ہیں، دو سال کی پابندی کے بعد میں سیاست کا حصہ بنوں گا اور نہ ہی اس کے بعد بھی کبھی۔ریٹائرڈ جرنیل کے حوالے سے ماضی قریب میں سیاست اور میڈیا میں بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے کہ وہ آرمی چیف کے عہدے پر عمران خان کی بہترین انتخاب سمجھے جاتے تھےجمعرات کو ایک ویڈیو فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی کہ فیض حمید نے اپنے آبائی گاؤں چکوال میں ایک عوامی اجتماع میں شرکت کی ہے جس میں ایک نامعلوم شخص نےعوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ریٹائرڈ جرنیل کی فوج کیلئے اور اپنے علاقے کیلئے خدمات پر ان کی تعریف کی۔ اس شخص نے ریٹائرڈ جرنیل کو سیاست میں شرکت کی دعوت دی اور کہا کہ وہ ملک کی ترقی کیلئے کردار ادا کریں۔کئی صحافیوں اور دیگر لوگوں نے اپنے اپنے تبصروں کے ساتھ ٹوئٹر پر یہ ویڈیو شیئر کی۔ ایک پاکستانی اداکارہ اور بلاگر شمع جونیجو نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ٹوئٹ کی کہ عمران خان کیلئے اصل خطرہ پی ڈی ایم نہیں بلکہ ان کا اپنا ہی محبوب دوست جنرل فیض ہے جو اس وقت پی ٹی آئی کی باگ ڈور سنبھالنا چاہتے ہیں جب وہ [عمران خان] کو نا اہل قرار دے کر گرفتار کیا جائے گا۔
ریٹائرڈ جرنیل نے چکوال میں ایک اجتماع کا اہتمام کیا جہاں مقامی افراد نے انہیں ’’درخواست‘‘ کی کہ ’’باضابطہ‘‘ سیاست میں شمولیت اختیار کریں۔ اس نمائندے نے واٹس ایپ کے ذریعے جنرل (ر) فیض کو یہ ویڈیو بھیجی۔ ریٹائرڈ جرنیل نے جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کے بعد قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔انہوں نے یہ ویڈیو دیکھ کر کہا کہ یہ سب غلط ہے۔ بعد میں جب رابطہ کرکے ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ 2 سال کی پابندی یا اس کے بعد کبھی سیاست میں آئیں گے اور نہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے آبائی گاؤں میں تھے جہاں ان کے رشتہ داروں اور مقامی افراد اکثر ان سے ملنے آتے ہیں۔ اس موقع پر ایک شخص نے ان سے درخواست کی کہ پاکستان کی ترقی کیلئے سیاست میں شمولیت اختیار کریں۔جیو کے لندن میں نمائندے مرتضیٰ علی شاہ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’آرمی کہتی ہے کہ افسران ریٹائرمنٹ کے بعد 2 سال تک سیاست میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن جنرل فیض نے اپنی ریٹائرمنٹ کے چند گھنٹوں بعد ہی پی ٹی آئی رہنماؤں کے ساتھ ایک عوامی اجتماع میں شرکت کی۔ مقامی افراد نے علاقے کی ترقی کیلئے فنڈز جاری کرانے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ پاکستان زندہ باد۔‘‘ میڈیا اور سیاست میں کئی لوگ ریٹائرڈ جرنیل کو عمران خان کا حامی اور انہیں پروموٹ کرنے والا شخص سمجھتے ہیں۔جنرل فیض پر عموماً الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ آئی ایس آئی کی طاقت استعمال کرکے عمران خان کو ان کی سیاست میں فائدہ اور ان کے مخالفین کو دباتے آئے ہیں۔سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے درمیان تعلقات کو اس وقت نقصان پہنچا جب کور کمانڈر کی حیثیت سے پشاور ٹرانسفر ہونے والے جنرل فیض حمید کو خان نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی سبکدوش کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ ایک سنگین معاملہ اور عوامی سطح پر ایک تنازع بن کر سامنے آیا۔بعد میں عمران خان نے فیض حمید کو ٹرانفر کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی لگایا گیا۔خان کے سیاسی مخالفین بالخصوص ن لیگ والے سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے پر جنرل فیض پر تنقید کرتے رہے ہیں۔عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے جانے کے موقع پر ن لیگ والوں کو ایک خوف یہ بھی تھا کہ اگر عمران خان بدستور عہدے پر رہے تو وہ جنرل فیض کو آرمی چیف لگا دیں گے اور اس کے بعد وہ اپنی حکومت کو طول دینے کیلئے آئندہ عام انتخابات میں ہیرا پھیری کرکے اپوزیشن کی طبعیت درست کریں گے۔