ایک عام سا گھر صبح چھ، ساڑھے چھ بجے کا منظر، سمجھ لیں کہ یہ گھر میرا ہے۔ اچانک چند ملی جلی مانوس آوازیں کانوں سے ٹکراتی ہیں ’’ماما مجھے دیر ہو رہی ہے۔ میرا جام اور بن کباب کہاں ہے‘‘۔
میری بیٹی کی آواز جس کو ہر چھوٹی سےچھوٹی بات پر شور مچانے کی عادت ہے۔
”ماما بھائی کو دیکھیں، اس نے میرا پین نکالا ہے” اس کی ایک اور شکایت آئی۔
”نہیں ماما اس نے خود نکالا تھا رات کو”۔
میرا بیٹا مسکراتے ہوئے خود کو بچا گیا۔ اس کی شرارتی مسکراہٹ کچھ اور کہہ رہی تھی۔ مجھے پتہ تھا وہ بہن کو تنگ کرنے کے لئے یہ سب شرارتیں کرتا رہتا تھا۔ ’ماما پیزا ہٹ والے ہمارے اسکول میں آرہے ہیں۔ مجھے پیسے دیجیے، ہمیں ایک ڈیل خریدنی ہے۔ ” میری بیٹی کی ایک اور ڈیمانڈ ”اور ماما میری چاکلیٹ، آپ نے پچھلے ہفتے پرامس کیا تھا”۔ اس نے ایک اور فرمائش داغ دی۔
”ارے بھئی تم لوگ کیا کرتے ہو، ہر روز نت نئی فرمائشیں اور میرا بجٹ آؤٹ ہو جاتا ہے”۔ اس خوش کن شور میں میرے شوہر کی بیزار سی آواز آئی وہ اپنا بجٹ ڈسٹرب ہونے پر اسی طرح واویلا کیا کرتے ہیں۔
پی۔ پی۔ پی۔ ۔ ۔ اچانک وین کے ہارن کی آواز نے سب کو چوکنا کردیا اور بچے’’ اللہ حافظ ماما، اللہ حافظ پاپا‘‘ کہتے ہوئے گیٹ سے باہر نکل گئے۔
ایک سکون، ایک اطمینان۔ ان کی روز روز کی لڑائیاں بعض اوقات سر میں درد کر دیتی ہیں اور پھر یہ جو کمرے کو میدان کا رزار بنا گئے ہیں اس کو بھی تو صاف کرنا ہے اور پھر ان کی فرمائشیں،ہر ایک کے لئے علیحدہ کھانا اور مجھے اس باقی ماندہ ناشتے کو بھی تو حلق سے اُتارنا تھا جو وہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
لیکن ٹھہریے! اچانک میری سوچ کا زاویہ کہیں ٹھہر گیا، لگا جیسے میرا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔ کیا یہ منظر ہر گھر میں روزانہ نہیں ہوتا، جہاں کالج، اسکول پڑھنے والے بچے رہتے ہیں، جی ہاں 16 دسمبر 2014ء کو بھی 147 معصوم شہیدوں کے گھروں میں یہی منظر ہو گا، مائیں اپنے بچوں کی معصومانہ خواہشیں اور شکایتوں پر مسکراتی ہوں گی۔ کچھ ڈانٹ کچھ نخرہ بازی اور کچھ جھڑپ اور اس کے بعد خدا حافظ، 6 سالہ خولہ بی بی کے گھر میں تو خوشی کی ایک انوکھی لہر ہو گی کیونکہ خولہ پہلے دن اسکول جا رہی تھی۔ کس کو پتہ تھا کہ یہ اس کا آخری دن ثابت ہو گا۔ سید عبداللہ شاہ اور سید حسین شاہ دونوں بھائی جو ڈاکٹر اور آرمی آفیسر بننا چاہتے تھے ان کا گھر بھی اس روز اس سے کہاں مختلف ہوگا وہ بھی تو اپنے خوابوں کو تعبیر دینے نکلے ہوں گے۔ اور پھر طاہرہ قاضی آرمی پبلک اسکول پشاور کی پرنسپل جس نے استاد ہونے کا حق ادا کر دیا اور اپنے روحانی بچوں کی طرف اُٹھنے والی میلی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور دشمن کو للکار کر کہا ’’مجھ سے بات کرو میں ان کی ماں ہوں‘‘ اور جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ اُردو کی ٹیچر فرحت بی بی کے بچ جانے والے بچے اپنی ماں کو کہاں ڈھونڈیں گے جو دوسرے بچوں کو بچاتے بچاتے اپنی زندگی ہار گئی اور اس بچے کو والدین جنہوں نے اس کی سالگرہ کے دن اس کو اللہ حافظ کہا اب ہر سال سوچیں گے کہ سالگرہ برسی میں کیوں تبدیل ہوگئی۔ جتنے بچے اتنی کہانیاں۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھوں والے بچے اور ان کے خواب آسمان پر چمکتے ستارے جو اس دہشت گردی کی دھند میں دھندلا گئے۔ ان کی مسکراتی تصویریں، میڈلز اور سرٹیفکیٹ سب ماضی کا حصہ اور پھر دلخراش خبریں،۔ ۔ ۔ ۔ ”اب اے پی ایس میں کلاس نہم نہیں ہے۔ تمام بچے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ 15 سالہ داؤد بچ جانے والا واحد بچہ ہے۔ چھوٹے جنازے بے حد بھاری ہوگئے”، مسکراہٹیں ہونٹوں سے غائب، خوف کی ایک ٹھنڈی لہر جسم میں دوڑ جاتی تھی یہ سب پڑھ کر۔ اس ماں کی صدا کہ جس کے بچے نے صبح اُٹھنے میں دیر لگا دی اور اسکول نہ گیا۔ اس نے ایک لمحے شکر کیا لیکن جلد یہ شُکر شرمندگی میں بدل گیا۔ ” اللہ میں اپنے بچے کے بچ جانے کا شُکر کروں یا ان تمام بچوں کا بین کروں جو چلے گئے ” اور پھر عاکف عظیم جس نے اپنا بلاگ ’’میرے اندر کا اندھیرا‘‘ لکھا اور ہر ایک سے ایک سوال کیا۔ ”میرے اردگرد کی دنیا میں لوگ اپنی اپنی زندگی انجوائے کر رہے ہیں بغیر کسی خوف کے۔ لوگو! ایک نظر مجھے دیکھو میں تمہارا ہی حصہ ہوں، دیکھو! میں کتنے لوگوں کی قبروں پر ابھی تک کھڑا ہوں جنہیں میں نے 16 دسمبر کو کھو دیا۔ میں کہاں جاؤں\”، ایک ایسا سوال جس کا جواب ڈھونڈنا بے حد مشکل۔ وہ دن جب ان بچوں اور ان کے خاندانوں کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے۔ ماؤں کے کلیجے پھٹ گئے اور کئی ادھورے سوال چھوڑ گئے۔ ان خاندانوں کو’’ شہیدوں کے خاندان‘‘ کی تسلی کی گولی دے کر سلا دیا گیا۔
سوال تو اٹھائے گئے مگر بے مقصد، ویسے ہی بے مقصد جیسے کہ کسی حادثے کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر اُٹھائے جاتے ہیں مگر پہلی برسی پر ایک ماں کا سوال دل چیر گیا، یہ گہری نیند میں دیکھے گئے بھیا نک خواب سے جاگنے والی ماں کی چیخ تھی۔ جو جاگ گئی تھی ایک رپورٹر کے سوال پر جس نے پوچھا کہ ”ایک شہید کی ماں ہونا کیسا لگتا ہے” اور وہ تڑپ کر بولی، ”کیا شہید شہید لگا رکھا ہے، ہم نے اپنے بچے محاذ پر نہیں، اسکول بھیجے تھے”۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ علم و عمل کی جنگ یہاں بھی شروع ہوگئی۔ شاید قوموں کو تباہ کرنے کے لئے ان کے بچوں اور جوانوں کو ہی تباہ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ہلاکو خان نے بھی تو یہی کیا تھا نا آخر۔ ۔ ۔
پھر ان آنکھوں نے وہ ڈرامہ بھی دیکھا کہ جگہ جگہ اسکولوں میں الرٹ ایکسرسائز شروع ہوئیں، ہارن بجنے لگے۔ قلم اور کتاب کے ذریعے تعلیم دینے والی اساتذہ کو بندوق چلانے کی تربیت دی جانے لگی۔ مگر یہ ایکسرسائزز ایسی ہی ثابت ہوئیں جیسے کہ پاکستان میں جہاز میں فلائٹ شروع ہونے سے پہلے ایک ڈیمو کیا جاتا ہے لیکن کریش ہونے والے جہاز کے نہ تو ایمرجنسی دروازے ہوتے ہیں نہ آکسیجن ماسک نیچے گرتے ہیں اور نہ ہی لائف جیکٹ سیٹ کے نیچے سے نکلتی ہے اگر یہ سب ہوتا تو PK 661 کے شاید کچھ لوگ بچ جاتے۔
پشاور اسکول کا پہلا دن میڈیا کے لئے خبروں سے بھرا پُرا دن ثابت ہوا ، کون آیا کس کو پھول ملے اور کس کو جُوتے۔ ان کا بریکنگ نیوز کا ڈبا گھو متا رہا۔ لیکن بہادر قوم کے بہادر بچے اس یقین کے ساتھ کہ ”موت تو ایک دن آنی ہے” پھر نئے عزم کے ساتھ موجود تھے۔ آنسوؤں اور مسکراہٹوں میں پہلا دن عزم و ہمت کی نئی داستانیں رقم کر گیا۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے اسی پر بھی اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کی کہ یہ بچے اسکول میں آنے کے بعد کیسے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ معمول کے سیاسی بیانات۔ مگر آنے والا دن گزر گیا تھا۔ 16 دسمبر پاکستان کی تاریخ میں دوسری بار خون کی ہولی کھیل گیا تھا حوصلے توڑ گیا تھا مگر بازی پھر بھی باہمت بچوں اور ان کے ناقابل تسخیر عزم کےہاتھ رہی۔
لیکن شاید ہم سویلین کا حوصلہ اتنا بڑا نہ تھا۔ میرے جیسی خوفزدہ مائیں بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے کانپ جاتی تھیں، ایک سوال۔ ۔ ان کو غیر محفو ظ ماحو ل میں پڑھنے بھیجیں یا انکو جاہل لیکن محفوظ رہنے دیں۔ رہا سہا عزم مختلف اسکولوں میں موصول ہونے والے دھمکی آمیز خطوط اور چند اسکولوں میں کفن پھینکنے کے واقعات نے توڑ دیا۔ گرامر اور کانونٹ اسکول دہشت گردوں کا خاص نشانہ تھے۔ جو ان کے خیال میں بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کر رہے تھے۔ مرنے سے زیادہ مرنے کے خوف نے مار دیا۔ اگرچہ کفن پھینکنے کے واقعات کے جواب میں دل کو ” مومن موت سے نہیں ڈرتا” کی طفل تسلی سے بہلاتے مگر طفل تسلی تو بہر حال طفل تسلی ہی ثابت ہو رہی تھی، خوف در خوف کا ایک سلسلہ دراز ہوتا محسوس ہوتا تھا۔
مگر مجھے اچانک احساس ہوا کہ میرے بچوں پر ان تمام واقعات کا کوئی زیادہ اثر نہ تھا۔ وہ تو روزانہ ٹی وی پر ان بچوں کی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے جو واپس اسکول جا رہے تھے۔ خاموشی سے۔ توجہ سے سکرین سے نظریں ہٹائے بغی وہ ٹی وی میں مگن رہتے۔ اور پھر ایک دن اپنی گھبراہٹ سے تنگ آکر میں نے اپنے بچوں سے پوچھا ’’کیا تم لوگ خوف زدہ نہیں ہو‘‘ اور میرے بچوں نے یک زبان ہو کر کہا ’’نہیں ماما بالکل نہیں‘‘ پھر میرے بیٹے کی سنجیدہ اور گھمبیر آواز آئی۔
’’ماما آرمی اسکول کےبہادر بچے بھی ہماری طرح کے بچے تھے۔ بے شک ان کی تربیت ایک فوجی گھر میں ہوئی اور وہ فوجی ماحول میں پلے بڑھے مگر ماما تھے تو بچے ہی نا، لیکن وہ اسکول جا رہے ہیں۔ وہ بچے جو اس دن اتفاقاً اسکول نہیں گئے یا اس حادثے سے بچ گئے ہم سے زیادہ بہادر ہیں کیونکہ انہوں نے اس ہولناک حادثے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اب پھر نئے عزم کے ساتھ سکو ل جا رہے ہیں۔ تو ہمیں ان کا حو صلہ بڑھانا چاہیے‘۔ ‘
”اور یہ جو کفن پھینکنے والے واقعات اور دھمکی آمیز خطوط” ،میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
’’ماما یہ بزدل لوگ ہیں، مسلمان موت سے نہیں ڈرتے۔ اللہ ہماری حفاظت کرے گا۔ یہ مسلمان نہیں ہیں ورنہ یہ سب کچھ نہ کرتے۔ ‘‘
میرے منہ سے اطمینان کی ایک سانس نکل گئی۔ سکون میرے رگ و پے میں سما گیا۔
”جی ہاں مجھے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ میں نے اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور صد شکر اس مالک کائنات کا کہ میں صحت مند اور زندہ سلامت بچوں کی ماں ہوں۔ وہ میرے ساتھ میرے آس پاس ہیں۔ شورمچاتے ہوئے، لڑتے ہوئے، شرارتیں کرتے ہوئے۔ ہمیں خدا نے موقع دیا کہ ہم ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے جدوجہد کریں لیکن ان کی میرے آس پاس موجودگی میری اپنی موجودگی کی وجہ ہے۔ اگرچہ وہ دوسرے بچوں کی طرح اداس ہیں اپنے ساتھیوں کے بچھڑ جانے پر مگر ان کا حوصلہ ناقابل تسخیر ہے۔ انہیں یقین کامل ہے کہ وہ ایک مسلمان گھرمیں پیدا ہونے والے بچے ہیں اور اس دہشت گردی کو ختم کرنے کے بارے میں پُرعزم ہیں۔
اور پھر وہ نغمہ ’’بڑا دشمن بناپھرتا ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے” مزید حو صلہ دلا گیا۔ جی ہاں ہمارے ’’الفا۔ براوو۔ چارلی” ہمیں نیا سبق دے گئے ہیں۔ عزم کا، ہمت کا،میرے ننھے پھولو! تم ہی ہمارے اصل ہیرو ہو، خدا تمہیں جنت کی ہواؤں میں شادو آباد رکھے اور تمہاری ماؤں کو تمہاری قربانیاں سہنے کا حوصلہ عطا فرمائے۔ (آمین)