لاہور(نمائندہ خصوصی ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ کرپشن کیسز کے ڈر سے بھاگنے والے سب لوگ این آر او 2 کی گنگا میں دھل کر صاف ہو رہے ہیں، نواز شریف بھی واپسی کے لئے پر تول رہاہے ، ہمارے ملک میں انصاف نہیں جو معاشرہ ظلم اور ناانصافی کا مقابلہ نہیں کرتا وہ مر جاتا ہے،جب بھکاریوں کی طرح مانگتے پھریں گے تو سبز پاسپورٹ کی عزت چلی جاتی ہے ،امداد لینا تباہی کا راستہ ہے، مشکلوںسے نکل کر قوم بنتی ہے ،بھارت امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر ہونے کے باوجود روس سے چالیس فیصد تیل لے رہا مگر ہمارے اوپر بیٹھے غلام ڈرتے ہیں کہ آقا ناراض نہ ہو جائے ،ڈالروں نے غلام بنا کر رکھا ہے ،ہمیشہ آزاد ذہن ہی اوپر جاتے ہیں، جب تک ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر بحیثیت قوم جدوجہد کرنا نہیں سیکھ لیتے تب تک ملک ترقی نہیں کر سکتا،انصاف قائم کرنے کے بعد ہی خوش حالی آتی ہے، جو معاشرے خوش حال ہیں سب سے زیادہ انصاف وہیں ہوتا ہے،ہمیں وہ پاکستان بنانا ہے جو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو جو کبھی کسی کے آگے نہ جھکے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے زمان پارک سے ویڈیو لنک کے ذریعے لاہور ، راولپنڈی ، کوئٹہ اور پشاور طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیز کالج کے نوجوانوں پر امید لگائی ہوئی ہے جو ملک کو اس سطح پر لے کر جائیں گے جس جگہ پر جانا چاہیے تھا۔ پاکستان ایک عظیم خواب تھا ۔ شاید پانچ سو سال میں ایسا ذہن نہیں آیا جو علامہ اقبال کا تھا ، ان کا بہت بڑا تصورتھا ،ہم نے مثالی اسلامی ریاست بننا تھا ۔ مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر ایک ملک کھڑا کر کے دنیا میں ایک مثال بننا تھا اور یہ ایک بڑا خواب تھا۔نواجوان پاکستان کا مستقبل ہیں ،اللہ نے آپ کوصلاحیت دی ہے ، آپ کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔فرشتوں کو کہا تھاکہ انسان کے سامنے جھکو اور جب شیطان نے پوچھا خدا نے کہا کہ تمہیں نہیں پتہ میں نے انسان کو کتنی طاقت صلاحیت دی ہے ۔ میں چاہتا ہوں آپ میری زندگی کے تجربے سے سیکھیں ۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ انسان جب گرتا ہے تو جانوروں سے بھی نیچے چلا جاتا ہے ۔یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ پرواز اوپر جانی ہے یا ہم نے زمین پر رینگنا ہے ۔عمران خان نے کہا کہ میں بڑا خوش قسمت انسان ہوں، جو اللہ سے مانگا اللہ نے مجھے سب کچھ دیا ۔ میں زندگی میں عروج دیکھا ہوا ہے ۔ جو زندگی میں حاصل کرنا چاہتا تھا وہ اللہ نے دے دیا ہے ۔ میری ایک خواہش ہے کہ میں اپنے ملک کو وہ بنانا چاہتا ہوں جس کو میں نیا پاکستان کہتا ہوں ۔جس وجہ سے ہم نے قربانیاں دی تھیں ہم واپس ادھر سے جائیں اور اس خواب کو کھڑا کریں اور مثالی اسلامی ریاست بنائیں ، لوگ دنیا میں پاکستان کی مثال دیں ۔ میں ایک آزاد انسان ہوں ، میں سمجھتا تھا کوئی چیز نا ممکن نہیں ہے ۔ جتنا بھی ہدف مشکل ہو میں نہیں سمجھتا تھا وہ نا ممکن نہیں ہے یہ آزاد ذہن ہوتا ہے ۔ آزاد ذہن جو خواب دیکھتا ہے وہ وہاں تک پہنچ سکتا ہے ۔ آزاد ذہن ہی بڑے خواب دیکھتے ہیں اور وہ رکاوٹیں دور کر کے وہاں پہنچ جائے گا۔ کیونکہ جو بھی سوچتے ہیں وہ آپ کر سکتے ہیں ۔ رکاوٹ کہاں آتی ہے ،سب سے بڑی رکاوٹ ہارنے کا خوف ہے ۔ا گر میں اس کے پیچھے جاﺅں گا اگر میں ناکام ہو گیا تو کیا ہو گا۔ اگر میں بڑے خواب کے پیچھے گیا تو جان کا خطرہ ہوا لوگ اس خواب کو چھوڑ دیتے ہیں ،یا میرا رزق نہ چلا جائے ،خوف ایک ایسی چیز ہے جو ایک انسان کو اپنے مقصد پر پہنچنے سے روکتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ میری ساری زندگی میں بھی خوف تھے ۔ جب کرکٹ شروع کی تو میرا مذاق اڑایا گیا ۔ میرے فرسٹ کزن تھے جو پاکستان کے ٹیسٹ کپتان بن چکے تھے ۔ مجھے کہا گیا کہ تمہارے اندر وہ صلاحیت نہیں ہے ۔ہر راستے پر دنیا کہے گی آپ یہ نہیں کر سکتے ۔ اپنے ذہن میں یہ ڈال لیں جب بھی آپ کوئی کام کریں گے بڑے خواب کے پیچھے جائیں گے تو لوگ آپ کو کہیں گے یہ نا ممکن ہے ۔ مشکلیں اور مایوسی آئے گی لیکن جو اللہ نے ہمیں طاقت دی ہے اور ہم فیصلہ کر لیں ہم نے کشتیاں جلا کر یہ کام کرنا ہے ، میرا کوئی پلان بی نہیں ہے ، اگر میرا یہ پلان فیل ہو گیا تو میرا کوئی پلان نہیں ہے ۔ ہمارے اندر صلاحیت ہے وہ کیسے باہر آتی ہے جب ہم ایک چیز پر جنونی طور پر توجہ مرکوز کر لیتے ہیں ۔ جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا تھا کہ یا میں کروں گا یا میں مرجاﺅں گا۔ انہوںنے کہاکہ جب آپ کا برا وقت آتا تھا وہ آپ کے کردار کا ٹیسٹ کرتا ہے ۔ برا وقت آتا ہے آپ اکیلے ہوتے ہیں اس وقت اللہ آپ کو موقع دیتا ہے کہ آپ کی کیا غلطیاں تھیں ، جائزہ لیتے ہیں کہاں غلطی کی ، غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اگر یہ صلاحیت آ جائے اپنی غلطیوں کی نشاندہی کر لیں ۔ہار نہ ماننا اور جب وقت آتا ہے اپنی غلطیوں کا خود جائزہ لیں اورمحنت کر کے اپنی غلطیاں دور کریں۔ انسان ہارتا تب ہے جب وہ ہار مان لیتا ہے ۔ خود دار ذہن کی پرواز اوپر جاتی ہے ۔ غلام ذہن کی پرواز کبھی اوپر نہیں جاتی ۔ ہمارا ملک تب تک بڑا کام نہیں کرے گا جب تک ہم ذہنی طور پر اس چیز سے آزاد نہ کریں جب تک سپر پاور کی حمایت حاصل نہیں ہو گی ، جب تک ہمیں اسے خوش نہیں کریں گے ، ڈکٹیشن نہیں لیں گے اس خوف سے رہیں گے وہ ناراض نہ ہو جائیں ۔ اس فکر میں رہیں کہ اگر ہم روس سے سستا تیل لیں گے تو کہیں آقا ناراض نہ ہو جائے ۔جب تک ہم اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو کر بحیثیت قوم جدوجہد کرنا نہیں سیکھیں گے ہم آزاد ملک بن کر نہیںرہ سکتے ۔عمران خان نے مزید کہا کہ لا الہ اللہ آزادی کا دعوی ہے ، اس میں بہت بڑا فلسفہ ہے ۔ دعویٰ کر کے کسی سپر پاور کے سامنے جھکتے ہیں تو اس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور اس قوم سے برکت اٹھ جاتی ہے ۔میں بار بار مدینہ کی ریاست سے سیکھنے کا کہتا ہوں ۔622اور632کے درمیان انقلاب آیا دس سالوں میں دنیا بدل گئی اور یہ انقلاب تاریخ کا حصہ ہے ، پھر مسلمانوں نے دنیا کی امانت کی ،ہمارے نبی کون سا فکری انقلاب لے کر آئے تھے چھوٹے سے انسانوں کے ساتھ انہوںنے دنیا کی امامت کی ، اس کے لئے سب سے پہلے خودداری ہوتی ہے ، علامہ اقبال نے مسلمانوں کوجگانے کے لئے خودی سے روشناس کرایا ۔