لاڑکانہ( رپورٹ: محمد عاشق پٹھان )لاڑکانہ سندھ حکومت کا بڑا منصوبہ کھٹائی میں پڑنے کا امکان، ورلڈ بینک کی جانب سے بنایا گیا میڈیکل ایمرجنسی ریسکیو سینٹر کون چلائے گا ؟ فیصلہ نہ ہوسکا، ماہانہ بجٹ ممکنہ طور پر 60 کروڑ روپئے سے زائد، مختلف اداروں میں ٹراما سینٹر اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش جاری تفصیلات کے مطابق سندھ میں پہلا جدید ٹراما سینٹر کراچی میں بچایا گیا جو کہ زیر محکمہ صحت ایک خودکار نظام کے تحت چلتا ہے تاہم ورلڈ بینک کی جانب سے سندھ حکومت کو لاڑکانہ میں جدید سہولیات سے لیس ٹراما سینٹر مکمل تو کر کے دے دیا گیا ہے تاہم اسے چلائے گا کون یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، جبکہ ایمرجنسی ٹراما سینٹر کراچی کو سندھ حکومت کی جانب لاڑکانہ ایمرجنسی ریسکیو سینٹر کے عملے کی تقرری کے اختیارات دیئے گئے تھے جس کا عمل جاری ہے تو دوسری جانب ڈاکٹرز اور شہریوں کی بڑی تعداد اس بات کی خواہاں ہے کہ اس ادارے کو کراچی ٹراما سینٹر کی طرح خود کار نظام کے تحت چلنا چاہئیے لیکن ممکنہ طور پر لاڑکانہ ایمرجنسی کا ماہانہ 60 کروڑ روپئے کا بجٹ وہ واحد وجہ ہے جو کے اداروں اور شخصیات کو اس ٹراما سینٹر کی خاطر رسہ کشی میں مشغول کیے ہوئے کہ اس ضمن میں جامعہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی یونیورسٹی میں بھی میڈیکل ایمرجنسی ریسکیو سینٹر کے تمام اختیارات وائس چانسلر کو دیئے جانے کے لیے اجلاس ہوا جبکہ صوبائی وزیر صحت عذرا پیچوہو نے رجسٹرار یونیورسٹی عبدالرعوف خاصخیلی کو کراچی بھی بلوایا تاہم شھید بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی میں منعقدہ اجلاس میں میڈیکل ایمرجنسی ریسکیو سینٹر جامعہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کو سونپے جانے اور وائس چانسلر کو اسکے انتظامی امور کا سربراہ بنانے سمیت سنگل لائن ساٹھ کروڑ سے زائد بجٹ کا اختیار قل سونپنے پر بھی اتفاق کیا گیا
جبکہ جامعہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اربوں روپئے کی بدعنوانی اور انتظامی مسائل کے باعث 2008 سے ہی سرخیوں میں ہے یونیورسٹی کے پروفیسرز، افسران اور عملے کے سابقہ 401 غیر قانونی بھرتیوں میں ملوث ہونے پر اس وقت کے کمشنر لاڑکانہ عباس بلوچ اور یونیورسٹی کی اپنی تحقیقاتی کمیٹیز کی رپورٹس موجود ہیں جو نہ صرف وزیراعلی سندھ کو بھجوائی جا چکی ہیں بلکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے نیب کو اس پر کاروائی کی سفارش بھی کی تھی، ماضی کی جعلی بھرتیاں ایک جانب ایک ماہ قبل بھی رجسٹرار یونیورسٹی کی دستخط سے 37 مزید ملازمین کے جعلی نوکریوں کے آرڈرز سامنے آئے تھے اور کئی تو جوائیننگ بھی دے چکے تھے، جس کا پردہ میڈیا پر فاش ہونے کہ بعد انتظامیہ کا ایک سادہ سا بیان سامنے آیا کہ تحقیقات کی جارہی ہیں لیکن وہ تحقیقات 2 ماہ گزرجانے کے باوجود بھی کسی منتقی انجام ہو نہیں پہنچیں جامعہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی میں گذشتہ دو ماہ سے کوئی قائم مقام وائس چانسلر بھی سندھ حکومت تعینات نہیں کرسکی جبکہ اسی تعیناتی پر سندھ ہائی کورٹ میں پیٹیشن بھی زیر سماعت ہے، ایسے متنازع ادارے کو اتنے بڑے بجٹ پر مبنی ٹراما سینٹر کی باگ دوڑ دیے جانا کئی شقوق و شبہات کو جنم دے رہی ہے ۔