لاڑکانہ(بیورو رپورٹ) سندھ بلوچستان رائیس ملرز اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر قمرالدین گوپانگ، جنرل سیکرٹری اسد علی تنیو نے لاڑکانہ تعلقہ کے صدر صابر علی عباسی اور دیگر کے ہمراہ لاڑکانہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری تنظیم سے سندھ اور بلوچستان کے 2500 سے زائد ملیں جہاں 5 لاکھ سے زائد افراد کا روزگار وابستہ ہے، وفاقی حکومت نے مسائل حل کرنے کی بجائے خاموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مل کے تاجروں، مزدوروں، کسانوں اور آبادگاروں کو خودکشی پر مجبور کر دیا ہے اور ہمیں کہا جا رہا ہے کہ 18ویں ترمیم سے صوبے آپ کے مسائل حل کریں گے جبکہ حل نہ ہونے والے مسائل کے باعث ملک کے زراعت سے وابستہ اداروں نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوئی پالیسی بنانے کے لیے ہم سے رابطہ نہیں کیا، ہر روز وفاق اور صوبوں کی جانب سے ملوں پر کئی نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، جن میں سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی، پراپرٹی ٹیکس، ایکسائز ٹیکس، میونسپل ٹیکس، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، سندھ فوڈ اتھارٹی، سندھ فوڈ ڈیپارٹمنٹ، انکم ٹیکس، اولڈ ایج، ناپ تول کا ادارہ، مارکیٹ کمیٹی، بینکنگ، لیبر ڈیپارٹمنٹ، خرید و فروخت کے معاملات اور سب سے بڑا مسئلہ واپڈا ادارے کا ہے، بجلی کی حالیہ دو مہینوں کے بلوں میں اضافی ٹیکس ایک جبری ایس آر او کے تحت لگایا گیا ہے جس کے خلاف ہم ایک ماہ سے احتجاجی کال دے رہے ہیں لیکن کوئی نہیں سن رہا، ہم نہیں چاہتے کہ بلاجواز بلوں کی ادائیگی بند کرکے اداروں کے لیے مسائل پیدا کریں، انہوں نے کہا کہ اپنے مسائل کے متعلق وزیراعظم، وفاقی وزیر توانائی، سیکرٹری توانائی اور دیگر حکام کو خطوط لکھ چکے لیکن تدارک کرنے کے بجائے بھاری بلز جاری کیے گئے، ان کا کہنا تھا کہ بارشوں کی تباہی کے بعد فصلوں اور ملوں میں موجود مشینری کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے، بارشوں کی وجہ سے ہم بڑے معاشی بحران کا شکار ہیں، ہمارے احتجاج کا نوٹس لیں اور مذاکرات کریں اور اضافی بل واپس لے کر ریلیف فراہم کریں بصورت دیگر 18 دسمبر کے بعد احتجاج کا دائرہ بڑھایا جائے گا۔