ریاض (شِنہوا) چینی صدر شی جن پھنگ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز آ ل سعود کی دعوت پر سعودی عرب کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔ وہ چین اورعرب ریاستوں کےپہلے سربراہی اجلاس اورچین ۔خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بدھ کے روز یہاں پہنچے تھے ۔
وسیع طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شی جن پھنگ کا یہ دورہ عرب دنیا کے ساتھ چین کے تعاون کو مزید فروغ دے گا۔ اس سے خطے میں امن اور خوشحالی کو فروغ ملے گا اور نئے دور کے لیے مشترکہ مستقبل کے ساتھ چین ۔عرب برادری کی مشترکہ تعمیر کا راستہ طےکیا جائے گا۔
دنیا ایک بار پھر نازک موڑ پر ہے۔ عالمی چیلنجز کی ایک بڑی تعداد جیسا کہ سست رفتار عالمی معیشت، مختلف بلاکس کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاست اور دولت کی وسیع ہوتی ہوئی تفریق کے ساتھ ساتھ خوراک اور سلامتی کے بڑھتے ہوئے بحران انسانیت کے عزم اور دانش کا امتحان لے رہے ہیں۔
اسی پس منظر میں چین اور عرب ملکوں کو پہلے سے کہیں زیادہ تعاون کو مضبوط بنانے اور مختلف بین الاقوامی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے اکٹھے ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
شی نے یکم نومبر کو 31ویں عرب لیگ (اے ایل ) سربراہی اجلاس کے لیے اپنے تہنیتی پیغام میں کہا کہ چین نئے دور کے لیے مشترکہ مستقبل کے ساتھ چین ۔عرب برادری کی تعمیر کے لیے مشترکہ کوششوں اور عرب ملکوں کے ساتھ مل کر باہمی تعاون کوفروغ دینے اور تعاون کو وسعت دینے کے لیے تیار ہے ۔ تاکہ چین عرب تعلقات اور عالمی امن اور ترقی کے لیے ایک روشن مستقبل تشکیل دیا جا سکے۔
موجودہ حالات میں چین اور عرب ملکوں کے لیے چین ۔عرب ریاستوں کا پہلاسربراہی اجلاس ایک تذویراتی انتخاب ہے۔ دونوں ملکوں کے رہنما مستقبل کے تعاون کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے، دوطرفہ تعلقات کو جدید خطوط پر استوارکریں گے اور عالمی نظم و نسق، ترقی اور سلامتی اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے جیسے اہم مسائل پر اپنے اتفاق رائے کو مزید مستحکم کریں گے۔
چین اورخلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس سے ایک موقع کے طور پر فائدہ اٹھاتے ہوئے فریقوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی دوستی کی روایت کو برقرار رکھیں گے،مستقبل میں تعاون کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کریں گے اور مشترکہ ترقی کو فروغ دیں گے۔
چین اورعرب ملکوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ثقافتوں اور قوموں کے درمیان دوستانہ تبادلوں کی بہترین مثال قائم کی ہے۔
70 سال قبل عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے چین اور عرب ملکوں نے ایک دوسرے کا احترام کیا ہے، ایک دوسرے سے مساوی برتاؤ کیا ہے، باہمی فائدے حاصل کیے ہیں اور ایک دوسرے سے سیکھا ہے۔