لاہور۔27مئی (اے پی پی):چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ملک بھر میں مصالحتی انداز سے تنازعات کا حل وقت کی ضرورت ہے، اسے ضلعی عدلیہ اور ضلعی سطح تک فعال ہونا چاہیے، اس حوالے سے تربیت یافتہ ججز، وکلا اور ماہرین مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں ۔
وہ جمعہ کو یہاں مقامی ہوٹل میں عالمی ثالثی کانفرنس سے ویڈیو لنک کے ذریعہ خطاب کر رہے تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ روایتی طور پرمقدمات کی بھرمار سے ہمارانظام رک گیاروایتی عدالتی طریقہ کار میں پٹیشن کے ہمراہ اسٹامپ پیپر اور دیگر شواہد ہونالازم ہے ثالثی طریقہ کار ہمیں تکنیکی الجھنوں سے نجات دلا کرحتمی نتیجہ تک پہنچاتا ہے،
اس طریقہ کار میں تکنیکی بنیادوں پر مقدمہ خارج نہیں ہوتا بلکہ اسے حل کیا جاتا ہے حکومت کو بھی مصالحتی طریقہ کار کے حوالے سے موثر قانون سازی کرنی چاہئیے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چارٹرڈ ادارے اس حوالے سے ہماری مدد کرسکتے ہیں جبکہ نوجوان وکلا کو تربیت دے کر مقامی طور پر مصالحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے اسی طرح معاشرے میں سٹرکچرل تبدیلی کے ذریعے معاشی مفادات حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ روایتی مقدمہ بازی مہنگی اور طویل ہوتی ہے ہارنے والی پارٹی کو سارے اخراجات بھی اٹھانا پڑتے ہیں، مقدمہ بازی کو مصالحتی انداز سے میرٹ کی بنیاد پرنمٹایا جانا چاہئیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتیں، چیمبرز آف کامرس، ریگولیٹری ادارے مصالحتی انداز اختیار کریں اور مصالحتی طریقہ کار میں فیصلے سچائی کی بنیاد پر کئے جائیں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سی پیک کے نتیجے میں عالمی کمپنیوں کے تنازعات کو ملکی سطح پرمصالحتی انداز سے نمٹانا اچھا تجربہ ہوگا ۔سی پیک کے نتیجہ میں بیرونی سرمایہ کاری ملکی معاشی ترقی سے جڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی فورم پر تنازعات لے جانے سے بھاری اخراجات آتے ہیں۔
کانفرنس سے جسٹس سید منصور علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روایتی عدالتی نظام میں مقدمہ سالہا سال لٹکا رہتا ہے سائلین اپنے مقدمات کے فیصلوں کے لئے انتظار کی سولی پرچڑھے رہتے ہیں ثالثی نظام کو لانے کا مقصد مقدمات کو تیز ترین طریقے سے نمٹانا ہے۔
ثالثی نظام کو اپنا کرعدالتی نظام میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ آئین کاآرٹیکل 9 زندگی جینے کا حق دیتا ہے زندگی جینے کا حق فراہمی انصاف سے ہی ممکن ہے مصالحتی انداز سے فراہمی انصاف تیز ترین اور سستا تجربہ ہے انصاف کی جلد اور فوری فراہمی ہرشہری کا بنیادی حق ہے۔
مصالحتی انداز سے مقدمات نمٹانے کیلئے مصالحتی میکنزم بڑھانا وقت کی ضرورت ہے مصالحتی پروگرام کے لیے پاکستان بھر میں آگاہی لا کالجز کے ذریعے دی جا رہی ہے ہمارا قانون اور مذہب مصالحت کی اجازت دیتا ہے مصالحت کے ذریعے مقدمے بازی فاسٹ ٹریک کی طرح ختم ہوجاتی ہے ۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارا آئین اور قانون بنیادی حقوق پر زور دیتا ہے ۔مصالحت ہمارا آئینی حق ہے پاکستان بھر میں جائیداد تنازعات کے 20 لاکھ کیسز زیر سماعت ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بتایا کہ ملک بھر میں چار ہزار سے زائد ججز عدالتوں میں کام کررہے ہیں ہر جج کے پاس تقریبا تین ہزار کیسز زیر سماعت ہیں ابھی بھی سول کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے ہر روز کیسز کے اندراج میں اصافہ ہورہا ہے ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے پاس 17 لاکھ کیسز زیر سماعت ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ضلعی عدلیہ میں 67 فیصد کیسز سول نوعیت کے ہیں سول کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک کیسز ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہورہے ہیں ۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی نےکہا کہ شفاف اور فوری انصاف ہرشہری کا بنیادی حق ہے سستے، فوری انصاف کی فراہمی کیلئے مصالحتی نظام کا دائرہ اختیار بڑھانا ہوگا ملکی قانون فوجداری اور سول معاملات میں مصالحت کا حق دیتا ہے ۔
فیملی معاملات میں بھی قانون مصالحت کا موقع دیتا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ انکم ٹیکس، ایکسائز قانون میں بھی متبادل مصالحتی طریقہ کار کا تصور موجود ہے۔ تاخیر سے نمٹائے جانے والے مقدمات سے نمٹنے کیلئے پنجاب بھر میں مصالحتی سینٹر بنائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ مصالحتی سینٹرز کی کارکردگی عدلیہ پرمقدمات کے دباو کو کم کرنے میں موثر ثابت ہوئی ہے۔ کانفرنس سے مختلف ماہرین نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس میں ججز ، سینیر ماہرین قانون ووکلا سمیت دیگر ماہرین نے بڑی تعداد میں شرکت کی