کراچی(نمائندہ خصوصی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے منعقدہ پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز کے پہلے سیشن ”اکیسویں صدی میں اردو شاعری“ کے حوالے سے نشست کی صدارت افتخار عارف اور امجد اسلام امجد نے کی جبکہ ”اردو نظم کا تانیثی تناظر“ پر صوفیہ لودھی، ”مغربی دنیا میں اردو شاعری“ اشفاق حسین، ”اردو غزل کا موضوعاتی اور اسلوبی جائزہ “ ضیاءالحسن، ”اردو غزل کا طرز احساس“ خالد محمود سنجرانی، ”اردونثری نظم کے شعراءکا تصور عورت “تنویر انجم اور ”اردو رباعی“ پر عنبرین حسین عنبر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ شکیل جاذب نے نظامت کے فرائض انجام دےئے۔ افتخار عارف نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اردو کا علاقہ اب بہت وسیع ہوگیا ہے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کسی صوبے یا علاقے میں رہیں اور وہاں کی زبان کے اثرات آپ پر نہ ہوں۔ شاعر اپنی زمین اور مٹی سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے زمانے میں بہت ادیب اور بڑے بزرگ تھے آنے والے زمانے میں ادیبوں اور سننے والوں کی تعداد کتنی اور کیسی ہوگی اور کیسا ادب لکھا جائے گا یہ نہیں معلوم۔ انہوں نے کہا کہ اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ غزل معدوم ہورہی ہے مگر پھر کوئی نیا شاعر آتا ہے اور محفل لوٹ لیتا ہے، اب بھی نوجوان شعراءاچھی غزل لکھ رہے ہیں مگر جو غیر معیاری شاعری کررہے ہیں تو ان کے ساتھ ساتھ ان کی تعریف کرنے والے بھی کوئی اچھا کام نہیں کررہے۔ امجد اسلام امجد نے کہا کہ موضوع اگر اکیسویں صدی کے بجائے بیسوی صدی کے حوالے سے ہوتا تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ بیسوی صدی کی شاعری اپنے امکانات دکھاچکی ہے۔ اکیسویں صدی کے اچھے شاعروں نے بھی اپنا آغاز بیسوی صدی میں ہی کیا تھا ہم اکیسویں صدی میں صرف یہی دیکھ سکتے ہیں کہ کن چیزوں کی تقلید کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ آج شاعری کررہے ہیں وہ بہت اچھے ہیں اور سننے والے بھی بہت اچھے مگر آئندہ سالوں میں جو سننے والے ان کو ملیں گے وہ آج جیسے نہیں ہوں گے، یہ ایک سوچنے والی بات ہے۔ قبل ازیں صوفیہ لودھی نے اپنے خطاب میں کہا کہ عورت کو شدت پسندی نے متاثر کیا ہے مگر چونکہ عورت میں ہر طرح کے حالات سے نبردآزما ہونے کی طاقت ہے اور اسی طاقت نے اسے مضبوط کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے مسائل کو خواتین شاعرات نے اپنا موضوع بھی بنایا ہے جس دن خواتین کو انسان کا درجہ مل جائے گا وہ دن خواتین کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اشفاق حسین نے کہا کہ مغربی شاعری یہاں کی شاعری کی توسیع ہے اور اسے بڑھانے کا عمل بھی ہے، چاہے امریکا ہو یا کینیڈا وہاں جو شاعر شعر کہہ رہے ہیں وہ غزل کی روایت سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔ ضیاءالحسن نے کہا کہ گزشتہ دور میں غزل کی زبان نکھری ہے اس دور میں ابھرنے والے شاعروں نے غزل کی وسیع زبان کا زیادہ بہتر استعمال کیا ہے، ان شاعروں نے مختلف ادوار میں غیر تخلیقی عناصر کو رد کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزل میں زبان کا درست استعمال اہم ہے مگر اصل بات زبان کا تخلیقی اظہار ہے۔ نئے شاعر زبان کے اس تخلیقی اصول کو سمجھ رہے ہیں جوکہ ایک خوش آئند بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزل کی زبان ہمیشہ اردو کی بول چال کی زبان کے قریب رہی ہے۔ خالد محمودسنجرانی نے کہا کہ ہم اس وقت عالمگیریت کا سامنا کررہے ہیں، اکیسویں صدی کا طرز احساس یہ ہے کہ کہیں اندر سے ہمیں ایک آواز آرہی ہے کہ اکیسویں صدی کے آدمی کا رجحان مقامیت کی طرف زیادہ ہورہا ہے، اتنے عرصے تک ہم نے عالمگیریت کو دیکھ لیا مگر اب ہم اپنی مٹی اور مقامیت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔تنویر انجم نے کہا کہ بیشتر شاعروں کے یہاں عورت کی موجودگی اب بھی نہیں ہے مگر غیر موجود بھی تحریر میں اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا کہ موجود، کئی شاعرات نثری نظموں کو پیش کررہی ہیں، پنجاب میں یہ تعداد زیادہ ہے۔ عنبرین حسیب عنبر نے کہا کہ جدید غزل کے رجحان کی طرح رباعی میں انگریزی الفاظ کا استعمال ہے، رباعی میں بھی ہمیں نسائی شعور ملتا ہے۔ جوش ملیح آبادی نے رباعی میں ہمیں مالا مال کیا ہے اور اس صنف میں بہت عمدہ مضامین شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کی رباعی میں زندگی کے تمام موضوعات شامل ہیں مگر رباعی پھر بھی معدوم ہورہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک بہت مشکل فن ہے۔