کراچی(نمائندہ خصوصی) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سینٹ پال انگلش ہائی اسکول میں ثقافتی تقریب میں شرکت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے 80 فیصد علاقوں سے پانی نکالا جاچکاہے ۔ ہم لوگوں کی امداد اور بحالی پر اپنی توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں ۔ اب تک بھی ہم متاثرین کی بحالی کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات کررہے ہیں۔ جنوری کو جو ڈونر ایجنسیز کانفرنس ہونے جارہی ہے ہمیں امید ہے کہ ہم سندھ کا مقدمہ بہتر طریقے سے پیش کریں گے اور عوام کو بہت جلد ریلیف فراہم کریں گے اور ان کے گھر کی تعمیر کا کام جلد تکمیل تک پہنچایا جائےگا۔ سیلاب متاثرین بحالی کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور سندھ حکومت سب مل کر کام کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ متحدہ قومی مومونٹ پہلے بھی ہماری اتحادی رہی ہے ہم نے 2008 سے 2013 تک مل کر کام کیا ۔ 2013 کے بعد بھی کچھ عرصہ ساتھ رہے ۔ پھر انہوں نے ایک نیا تجربہ کیا۔ وہ مسلم لیگ نواز کے ساتھ بھی رہے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی رہے ۔ میرا خیال ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اور ہم سب نے یہ محسوس کیا ہے کہ صوبے کی بہتری کے لیے ہم نے ساتھ مل کر چلنا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب متحدہ قومی موومنٹ کو بھی وفاق سے خدشات محسوس ہوئیں تو انہوں نے ووٹ آف نان کانفیڈنس کے موقع پروزیراعظم پاکستان شہباز شریف ، زرداری صاحب ، بلاول بھٹو صاحب ، مولانا فضل الرحمان اور دیگر قائدین کے ساتھ مل کر ملک کی بہتری کے لیے اس نااہل سے چھٹکارا پایا۔پھر یہ فیصلہ کیا کہ سب کو وطن عزیز کی خوشحالی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے یہ اُسی کی کھڑی ہے اور اس میں نفع نقصان کی کوئی بات نہیں جو خدشات ہمیں اپنے حلقے کے بارے میں ہیں اس حوالے سے وہ ہم سے بات چیت کرتے ہیں اور یہ کوئی پہلی ملاقات نہیں تھی۔ میں کافی دفعہ اُن سے مل چکا ہوں اور ہم چیزوں کو لے کر آگے جارہے ہیں۔ ہم الیکشن کے لیے ہر وقت تیار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی پر اپنے ورکرز کی جانب سے بھی دبائو محسوس کررہا ہےکہ آپ الیکشن کرالیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن ہوں اور عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہ ایک طرح سے گھر گھر کا جھگڑا ہوجاتاہے اور ایک طرح کا مسئلہ ہے جو اُس وقت ختم ہوگا جب الیکشن ہوجائیں گے۔ہار جیت تو الیکشن کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے خدشات صرف الیکشن کے بارے میں نہیں ہیں، اُس پر ہماری کل بھی بات ہوئی ہے۔ آج بھی اس سلسلے میں ملاقات ہورہی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ تمام خدشات دور کریں گے۔ ہم بالکل تیار ہیں الیکشن کے حوالے سے ہمیں جو انتظامی طورپر معاملات حل کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا اُس پر قابو پا لیا گیا ہے ۔مراد علی شاہ نے کہا کہ لوگ شاید سمجھتے ہیں کہ ہم ریلیف اورریسکیو والے مرحلے سے گزر گئے ہیں ایسا نہیں ہے۔ اس وقت بھی جہاں سیلاب آیا ہے وہاں لوگ شدید تکالیف میں ہیں۔ اُن کے گھر گر گئے ہیں ۔اُن کے پاس کھانے کو نہیں ہے کیونکہ اُن کی ساری فصلیں تباہ ہوگئی ہیں اور اس موقع پر یہ تاثر دینا کہ سب ٹھیک ہے وہ میں نہیں کہہ سکتا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے80 فیصد علاقوں سے پانی کی نکاسی کرلی ہے ۔ ایسا نہیں جہاں سے پانی نکل گیا لوگوں کی زندگیاں معمول پر آگئیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو کہاکہ ری ہیبیلیٹشن کی طرف زور دیں وہاں بھی کچھ لوگوں کو یہ خیال تھا کہ ہم بحالی کی طرف زور دیں ، اب تک بھی ریلیف کا کام جاری ہے۔ 20 ہزار سے زائد اسکول مکمل طورپریا تو جزوی طورپر متاثر ہوئے ہیں جبکہ پولنگ کا عمل نارمل اسکول میں ہوتا ہے۔ہم ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے حوالے سے بھی انتظام کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم بڑے خیموں کا انتظام رہے ہیں جہاں بچوں کی تعلیم کو جاری رکھا جاسکے اوریہ سلسلہ اُس وقت تک چلتارہے گا جب تک ان کی اسکول کی بحالی کا کام مکمل نہیں ہوجاتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا زیادہ زور ریلیف اور ریسکیو کے کاموں پرہے ۔ ریسکیو سے مراد اُن کی زندگی کو ریسکیو کرنا ہے نہ کہ کوئی بہتے پانی کی جانب بڑھ رہا ہے اُسے آپ ریسکیوکریں۔ہم پر بہت زیادہ سیاسی دبائو ہے کہ ہم الیکشن کرائیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس طرح الیکشن کرانے ہیں کہ کل کوئی اُس پر انگلی نہ اٹھائے۔ پاکستان کی تاریخ بلکہ خطے کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا سیلاب تھا جو 2022 میں آیا اور جولائی، اگست میں شدیدبرسات ہوئی اور تین مہینے بعد ہم یہ کہیں کہ سب ٹھیک اور زندگی معمول پر آگئی ہے یہ کیسے ممکن ہے؟
عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب ان کی حکومت وفاق میں تھی تو انہوں نے صرف اعلانات کیے مگر سندھ کی بہتری کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور جو کچھ ہم کرنا چاہتے تھے اس میں بھی رکاوٹ پیدا کرتارہا۔انہوں نے کہا کوہ ہ متاثرین کے پاس سکھر آیا اور ایک ٹیبل لگائی، ان کے ساتھ کھانا کھایا اور دو ڈھائی گھنٹے بعد روانہ ہوا ۔ لیکن متاثرین کی بحالی کے لیے کچھ نہ کیا اور فنڈ جمع کرنے کے بڑے بڑے دعوے کیاکرتارہا۔ جب سیلاب زدگان تکالیف میں تھے تو اس شخص کو سوائے الیکشن کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ الیکشن اپنے وقت مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ عمران خان کی اپنی کارکردگی تو صفر تھی جس کی وجہ سے ملکی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ حکومت ایسی ہوتی جس طرح اُس نے کی ہے۔ بے وقوفی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور اس حد تک گیا کہ حکومت کو متاثرین کی مدد کے لیے پیسے نہ دیئے جائیں۔ ہم نے سنا تھا کہ اس نااہل نے بھی بڑے پیسے جمع کیے تھے مگر وہ پیسے کہاں خرچ ہوئے ، ادھر تو نہیں آئے۔انہوں نے کہا کہ جب وہ حکومت میں تھا اُس وقت صوبے کے لوگوں کو کوئی آسرا نہیں تھا تو اب سندھ کے لوگ اس سے کیسی امید رکھ سکتے ہیں لیکن عمران خان کے تماشوں نے ہماری کاوشوں کو شدید نقصان پہنچایا ۔ قبل ازیں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سینٹ پال انگلش ہائی اسکول کے زیر اہتمام ثقافتی دن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ثقافت ہی زندگی کا کل طریقہ ہے جس سے معاشرے کے لوگوں کو نوازا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں آج یہاں اور اس اہم موقع پر آپ سب کے درمیان دلی خوشی محسوس کررہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہم پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند خطہ ہے یہاں کے لوگ سادہ اور جلد گھل مل جاتے ہیں ۔ثقافت زندگی کا وہ عظیم رنگ ہے جس سے معاشرے کی خوبصورتیاں نکھرتی ہیں۔ ثقافت لوگوں کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیرتا ہے۔ثقافت ہمیں عظیم اصولوں اور رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کا درس دیتاہے۔انہوں نے کہا کہ ثقافت ہر معاشرے کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔ثقافت کو موسیقی، رقص، فنون، دستکاری، خوراک، لباس پہننے کے انداز، اور زبانوں کے ذریعے اجاگر کیا جاتاہے۔ثقافت کو انسان کے وجود میں آنے کے بعد سے جانا جاتا ہے، اور ہم اب بھی اس پر عمل پیرا ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ثقافت کے ذریعے معاشرے میں بہتر اور زیادہ کارآمد افراد بننے کا طریقہ سیکھتے ہیں۔ہر انسان میں خاص قسم کی خوبیاں اور برتاؤ کا ایک منفرد طریقہ یاپاجاتاہے۔ثقافت معاشرے کو یکجا کرتاہے۔ثقافت معاشرے کی زندگی کا مکمل طریقہ ہے جس کے مطابق وہ زندگی گزارتےہیں۔پاکستان مختلف ثقافتوں کا مسکن ہے۔ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں لوگ ان خوبصورت ثقافتوں، تاریخ اور دیگر حیرت انگیز قدرتی مظاہر کا مشاہدہ کرنے پاکستان آتے ہیں۔پاکستان ایک مہمان نواز ملک ہے۔ہم اپنی ثقافت کا بہت احترام کرتے ہیں ۔ثقافت ہماری پہچان ہے۔پاکستان میں مختلف ثقافتوں کا ایک خاص ملاپ ہے۔ہم اپنے اقلیتوں کا بھی خاص احترام کرتے ہیں۔پاکستانی ثقافت میں اقلیت بھی ہماری پہچان کا حصہ ہیں۔ثقافت کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے یہ ہمارے وجود کی عکاس ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جس نے ثقافت کو ترک کیا گویا اُس نے اپنی پہچان گنوا دی۔ہم ان تمام چیزوں کی حفاظت کریں جو ہماری ثقافت کا حصہ ہیں، اور اسے بلندیوں پر لے جائیں۔ہمیں ان تمام طریقوں کو ختم کرنا چاہیے جو انسانی حقوق کے خلاف ہیں خواہ وہ ہمارے معاشرے میں رائج ہی کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ایک عظیم ثقافتی خطہ ہے۔یہاں کی ثقافت کا سب سے اہم جز ہاہمی محبت اور احترام ہے۔یہاں تمام ثقافتوں کے رنگ نظر آتے ہیں۔اپنے ماحول کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔دریں اثناء اسکول کے پرنسپل مسٹر لیونارڈ انتھونی ڈیاس نے وزیر اعلیٰ سندھ کا خیرمقدم کیا اور اسٹالز کا دورہ کیا جہاں انہوں نے مختلف صوبوں کے ثقافتی رنگوں، سرگرمیوں، موسیقی اور کھانے پینے کی چیزوں کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے وہاں لگائے گئے سندھی، بلوچی، پنجابی، پشتون، کشمیری ثقافتی اسٹال کا دورہ بھی کیا اور ثقافتی لباس میں ملبوس بچوں سے بات چیت کی۔