لاڑکانہ(بیورو رپورٹ) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے لاڑکانہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی بحران بد ترین شکل اختیار کر رہا ہے، اگر استعیفے آ جاتے ہیں اسیمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ فوج کے اندر میرٹ اور سینارڑی کی بنیاد پر تقرری بھی ہو گئی ہے، قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے، اس کے باوجود بھی یہ سیاسی بحران ختم نہیں ہورہا، عمران خان کا لانگ مارچ بھی ناکام ہوا ہے، بے نتیجہ ہوا ہے تاہم کوئی سیاسی استحکام نہیں آیا، عمران خان اگر اپنی اسیمبلیاں توڑ دیتے ہیں، ضمنی انتخابات بھی ہو جاتے ہیں، پھر بھی سیاسی استحاکام دور دور تک نظر نہیں آ رہا، سیاسی بحران کی وجہ اقتصادی بحران ہے، خارجہ محاظ پر ہم مقبوضہ کشمیر کو نظر انداز کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ افغانستان میں افغان عوام کی فتح کو ابھی تک ہم تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور سی پیک کے حوالے سے بھی اعلانات اور دعوے تو بہت لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ان بحرانوں کا حل صرف انتخابات ہیں، انتخابی اصطلاحات ضروری ہیں، الیکشن کمیشن بااختیار ہونا چاہئیے، ملک میں قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، انتخابی اصلاحات کا فیصلہ قومی ڈائیلاگ کے ذریعے ہونا چاہئیے، انہوں نے کہا کہ روپئے کی قدر بحال نہیں ہو رہی، افراد زر بڑھ رہا ہے، مہنگائی نا قابل برداشت ہے، یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی لوگوں کے لیے ممکن نہیں رہی، جہاں پیداواری لاگت اس قدر بڑھ جایے، اس میں معیشت کو کس طرح اپنے قدموں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے؟ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے معاشی نظام اور قوم کو خود انحصاری، اپنے وسائل پر اعتماد، ایک نظم شکل دیں اس سلسلے میں وفاقی شرعی عدالت نے اہم ترین فیصلہ کیا ہے، لاڑکانہ کراچی میں بڑی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سب کا اتفاق ہے کہ پاکستان اس مغربی سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام کے ساتھ اپنی معیشت کو مستحکم نہیں کر سکتا، زکات پر مبنی اور سود سے پاک معاشی نظام پاکستان کو اپنے قدموں پر کھڑا کر سکتا ہے، ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ محظ دعوے اور اعلانات ہی نہ کریں، بلکہ آئیندہ خو باقی چار سال رہ گئے ہیں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق ایک واضع ایکشن پلان دیں کہ وہ اس معیشت کو اسلام کی اصولوں کی شاہراہ پر کیسے لے کر آئیں گے، ملک کی تمام دینی جماعتیں علماۓ اکرام، صنعت کار بھی مکمل طور پر اس پر تعاون کے لیے تیار ہیں، انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت ہے، اور عمران خان کے خلاف عدم اعتماد، کی کامیابی کے بعد انکے پاس حکومت آ چکی ہے، لیکن اب کئی ماہ گزر چکے ہیں، لیکن اب تک اس حکومت کی پالیسی، حکمت عملی، عوام کے لیے ریلیف کا کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا، عمران خان ماضی کی حکومتوں کی ناکامی کا تسلسل تھے، موجودہ حکومت بھی عمران خان کی ناکامی کا تسلسل ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی جب کوئی پالیسی ہی نہیں ہے، تو اسی وجہ سے اب دہشتگردی بڑھتی جا رہی، انسانوں کو پھر ٹارگیٹ کیا جارہا ہے، قانون نافظ کرنے والے اداروں کے افراد ٹارگیٹ کیے جارہے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان جس پر تمام جماعتوں کا اتفاق تھا اس پر غیر جانبدارانہ بنیادوں پر عمل ہونا چاہئیے اور نیشنل ایکشن پلان میں کسی سے رعائیت نہیں ہونی چاہئیے، انہوں نے کہا کہ جہاں بلدیاتی انتخابات ہو گئے ہیں تو وہاں بلدیاتی اداروں کو کوئی اختیار دینے کو تیار نہیں، کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کے لیے تو ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، لیکن حکومت ایک بااختیار بلدیاتی نظام دینے کے لیے تیار نہیں، ہمارا مطالبہ ہے جہاں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں وہاں تمام اداروں کو فعال ہونا چاہئیے، انہیں فنڈز مہیا ہونے چاہئیں، بلدیاتی اداروں میں ترقیاتی کاموں اور پیسوں کے استعمال کا مظبوط مانیٹرنگ کا نظام ہونا چاہئیے، کراچی اور حیدر آباد میں عدالت اور الیکن کمیشن سمیت ہر سطح پر فیصلہ ہوچکا ہے تو اب سندھ حکومت فرار کے راستے اختیار کرنے کی بجائے کراچی اور حیدرآباد کے اندر اعلان کردہ تاریخ کے مطابق انتخابات کو یقینی بنائے، انہوں نے کہا کہ سندھ حال ہی میں سیلاب اور بارشوں کی بڑی تباہ کاری سے گزرا ہے، مکانات اور فصلیں تباہ ہوئی ہیں، سیلاب متاثرین کی بحالی کا مرحلہ ہے، ریسکیو میں وفاق اور صوبائی حکومت نے نااہلی اور ناکامی کا مظاہرہ کیا، سیلاب متاثرین کی بحالی کا کوئہ لائحہ عمل ہمارے سامنے نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ عمران خان نے بھی ٹیلیتھان کیے، اعلانات ہو اربوں روپئے جمع ہوئے، معلوم نہیں ہو سکا وہ پیسہ کہاں ہے، متاثرین کی کیسے مدد کی جارہی ہے؟، ماضی کے حکمران ہوں یا موجودہ حکمران کسی کا عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے جو بھی امداد بین القوامی سطح پر حاصل ہوئی اسکا ایکشن پلان ہونا چاہئے، انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن نے سیلاب متاثرین کے لیے بہت کام کیا بین اقوامی سطح پر ہمارے کام کو تسلیم کیا گیا، ہمارے پاس سیلاب متاثرین کی بحالی کا لائحہ عمل ہے، اس پر عملدرآمد شروع ہے، انہوں نے کہا کہ ڈونرز کی پائی پائی سیلاب متاثرین پر خرچ کریں گے، بارش کا پانی سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اس پر کوئی لائحہ عمل نہیں کہ اس پانی کو عوام کے لیے باعث رحمت کیسے بنایا جائے؟ انہوں نے کہا کہ ملک میں اقتصادی بہران بد ترین شکل اختیار کر گیا ہے، سود نے قرضوں کی لعنت نے کرپشن اور بدانتظامی کی لعنت نے، اختیارات کے ناجائز استعمال نے پاکستان کی معیشت کو بلکل تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے، ہم دنیا بھر میں سے قرضوں کا بوخھ مصلت کرتے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈیفالٹ کا خطرہ ختم نہیں ہورہا۔