کراچی (کامرس رپورٹر ) صدرایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے فیڈریشن ہاؤس میں کسٹم کے اعلیٰ حکام کے ساتھ اجلاس میں تاجر برادری کو درپیش مسائل اور بے ضابطگیوں پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ کنٹینر ٹرمینلز کے ریگولیشن کے ادارے کی عدم موجودگی، سابقہ فاٹا اور پاٹا علاقوں کو دی گئی ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی چھوٹ کا غلط استعمال، ریفنڈز میں تاخیر، غیر منصفانہ ڈیمریجز چارجز، ڈیجیٹلائزیشن اور کنٹینر ز کے اسکینرز میں ناکافی سرمایہ کاری، HS اور PCT کوڈز میں ناکافی تنوع، صنعتی خام مال پر کیس کیڈنگ کے اصول کو نظر انداز کیاجانا اور تاجر برادری کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ناکافی مشاورتی عمل کسٹم آپریشنز کے ہموار چلنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ عرفان اقبال شیخ نے کنٹینر ٹرمینلز کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ تاجروں اور کنٹینر ٹرمینلز کے درمیان کام کرنے کے ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔ انہوں نے سابقہ فاٹا اور پاٹا علاقوں کو دی گئی استثنیٰ کے غلط استعمال پر بھی اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کیا؛کیونکہ اس رجحان نے انڈسٹری میں مسابقتی عمل کو متاثر کیا ہے۔عرفان اقبال شیخ نے سال 2005 سے ٹیکنالوجی کی اپ گریڈیشن اور کنٹینر ز کے اسکینر کے چارجز کی ادائیگی پر بھی مایوسی کا اظہار کیا؛ کیونکہ ابھی تک وسیع پیمانے پر اپ گریڈیشن نہیں ہوسکی ہے۔ انہوں نے کسٹم حکام سے متنوع اقسام کی درآمدات کو صحیح انداز میں ڈیل کرنے کے لیے 16 ہندسوں کے HS کوڈز کو اپنانے کا مطالبہ بھی کیا۔ نائب صدر ایف پی سی سی آئی انجینئر ایم اے جبار نے نشاندہی کی کہ ٹیرف ریشنلائزیشن کو مسلسل بدلتے ہوئے تجارتی اور صنعتی ماحول سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نظرثانی کا عمل مسلسل جاری رہنا چاہیے اور تجویز پیش کی کہ ایف بی آر کے ممبر پالیسی کو اسٹیک ہولڈرز سے ریگولر مشاورت جاری رکھنی چاہیے۔ نائب صدر ایف پی سی سی آئی شبیر حسن منشاء نے کسٹم معاملا ت کے لیے ایف پی سی سی آئی کے لیے ایک فوکل پرسن کا مطالبہ کیا اور سیشن کو بتایا کہ تاجر برادری کو ریفنڈز میں تاخیر کا سامنا اس لیے بھی کرنا پڑتا ہے کہ پے آرڈرز تاجروں کو بتائے بغیر کیش کروا لیے جاتے ہیں اور اس پریکٹس کی وجہ سے ورکنگ کیپیٹل بلا ک ہو جاتا ہے۔ ایف پی سی سی ا ٓئی کے کنوینر کسٹمز ثاقب فیاض مگوں نے سیکشن 81، 25A اور 25D کے تحت ضرورت سے زیادہ مقدمات کو نقصانات کا سبب بتایا اور مسلسل بڑھتے ہوئے ناجائز ڈیمریج چارجز پر افسوس کا اظہار کیا۔ایف پی سی سی آئی کے وزٹ پر آئے کسٹم حکام کے اعلیٰ اختیاراتی وفد کی قیادت چیف کلکٹر ایم سی سی اپریزمنٹ (ساؤتھ) واجد علی کر رہے تھے۔ ان کے ہمراہ کلکٹر ویسٹ طاہر قریشی اور کلکٹر ایسٹ فیاض رسول بھی موجود تھے۔ایف پی سی سی آئی کے سب سے بڑے مطالبے سے اتفاق کرتے ہوئے چیف کلکٹر واجد علی نے وعدہ کیا کہ کسٹم سے متعلق تاجر برادری کے تمام مسائل، تحفظات اور شکایات کو دور کرنے کے لیے فیڈریشن ہاؤس میں آن لائن کمپلین میکانزم کو لانچ کیاجائے گا۔ یہ میکانز م نہ صرف محکمہ کسٹم اور کاروباری برادری کے درمیان رابطے کو فروغ دے گا؛ بلکہ شکایات کے حل کے عمل کو بھی تیز کرے گا۔ چیف کلکٹر واجد علی نے سیشن کو بتایا کہ ان پٹ/آؤٹ پٹ کو ایفیشنٹ آرگنائزیشن (IOCO) نے سابقہ فاٹا اور پاٹا ریجن کے لیے کوٹے کا تعین کر لیا ہے لہذا اس کا غلط استعمال ختم ہو جائے گا۔انہوں نے یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ تاجروں کی سہولت کے لیے ریفنڈز کی واپسی پر تیزی سے کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل سنگل ونڈو (NSW) میں 12 ہندسوں پر مشتمل HS کوڈز پر کام کیا جا رہا ہے۔ چیف کلکٹر واجد علی نے مزید کہا کہ وہ کلاسیفیکشن کمیٹی میں اپنے نمائندے کو شامل کرنے کی تجویز باضابطہ طور پر دیں اور بتایا کہ ٓآلٹرنیٹیوڈیسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی (ADRC) کی بھی تشکیل نو کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزید کنٹینر ا سکینرز مستقل بنیادوں پر شامل کیے جا تے رہیں گے اور کسٹمز ڈپارٹمنٹ ڈیجیٹلائزیشن کے بہترین طریقوں کی طرف بڑھ رہا ہے؛ تاہم اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ تاجروں کی سہولت کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔چیف کلکٹر واجد علی نے تا جر برادری کی بہتری کے لیے ایف پی سی سی آئی کے لیے فوکل پرسن مقرر کرنے، پہلے سے جاری کردہ بل آف لیڈنگ اور لیٹر آف کریڈٹ کے لیےSRO598 کے تحت چھوٹ کے موثر نفاذ اور 90 دن کی ایڈوانس رولنگ کی سفارشات کا بھی خیر مقدم کیا۔