کراچی کےشہری محکموں میں بدعنوانی کی بدترین دوڑ جاری ہے اور اکثرنیب زدہ افسران کواعلی عہدوں پرتقرریاں دی گئی ہیں غیرجانبدارحلقے اسے چمک کاکمال قرار دیتےہیں جبکہ ماہانہ بجٹ کاسوفیصد خردبرد کیاجارہاہے مگر کوئی پوچھنےوالانہیں اسی طرح اندرون سندھ سے جعلی ڈگریوں پربھرتی افسران کولاکر ان کی من پسند تقرریاں کردی گئی ہیں جس پر شہری ملازمین میں بےچینی پھیل رہی ہےمگر سننے والاکوئی نہیں ضلع کیماڑی کی ڈی ایم سی میں ایک انتہائی جونیرافسرعمران سیال ہےجو 3 سال قبل دادوکی یوسی میہڑ میں سفارش پرگریڈ 18 میں بھرتی ہواکہا جاتاہے کہ اس کی تعلیمی اسناد بھی جعلی ہیں اسے صوبائی وزیر سہیل انورسیال کی سفارش پر کراچی تبادلہ کرکے ضلع غربی میں گریڈ 17 کا اکائونٹنٹس افسرمقرر کردیاگیا بعدازاں گریڈ 18 میں ترقی دیدی گئی اسے اے بی سی بھی پڑھنی نہیں آتی جب وہ پہلی مرتبہ ڈی ایم سی غربی کےدفتر آیاتو کہاجاتاہےاس نے کپڑے بغیراستری کےپہنےہوئےتھے اور پائوں میں اسپینچ کی چپل تھی 3 سالوں میں وہ گریڈ 14 سے 18 میں پہنچ گیا اب ڈبل کیبن میں دفتر آتاہے 4 پولیس کے گارڈ اس کی حفاظتی ڈیوٹی کےعلاوہ ہٹو بچو والے پروٹو کول کے فرائض انجام دیتے ہیں دفتر میں اس کی مخصوص پارکنگ میں ایڈ منسٹریٹر یاایم سی بھی گاڑی کھڑی نہیں کرسکتا
ضلع غربی کا ماہانہ بجٹ 26 کروڑ تھا کیماڑی الگ ہونےسے 14 کروڑ رہ گیاگزشتہ ماہ 18 کروڑ ملے جوسڑکوں کی مرمت اوردیگرترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کےلیے ملے تھے جس میں سے معمول کےمطابق 30/40 پرسنٹ ایڈ منشریٹر ایم سی اور اکائونٹنٹ کا کمیشن ہوتاہے اسے بھی اس کے حصہ کاکمیشن ملا مگرٹھیکداروں کوان کے بلوں کی حتمی ادائگی کے وقت بھی وہ اڑ گیاکہ مذکورہ بلنگ میں سے بھی 30 فیصد لونگاٹھیکیداروں نےبہت احتجاج کیامگر اس کی طاقت کےسامنے ہارگئےاورپھر مجبورً اس کازبردستی کاحصہ دیناپڑا جو 77 لاکھ بنامگر یہاں کہانی کاایک اور موڑآتاہے جوانتہائی دلچسپ اورحیرت انگیزہےاس اے سی کوٹھیکیداروں پراعتماد نہ تھااس لئے اپنے دوماتحتوں کو 22 دسمبر 2021 کوصبح 10 بجےسے دوپہر 2بجے تک بلیک شاپر دےکر بینک کے اندر بٹھائے رکھااور خود اپنی ویگومیں 4 پولیس گارڈز کےساتھ بینک کےباہرموجود رہاجس ٹھیکیدار کاچیک کیش ہوتاوہ اپنےحصہ کاکمیشن بلیک شاپر میں ڈال کر روانہ ہوجاتااس توہین پرکسی دل جلے ٹھیکیدار نے نیب میں شکایت درج کروادی نیب نے 22 دسمبرکی بینک کی کیمرا ریکارڈنگ قبضہ میں لےکرکاروائی شروع کردی ہےکہاجاتاہے کہ عمران سیال کےپاس اکائونٹس کی ڈگری بھی نہیں اب اسےمزید نوازنے اور ارب پتی بننے کی دوڑ میں فوقیت کی خاطر اس کے سرپرستوں نے اسے ضلع سائوتھ کی ڈی ایم سی کے اکائونٹنٹس کاایڈیشنل چارج بھی دیدیاگیاہےاسی طرح ڈی ایم سی ایسٹ میں ہر 3 ماہ بعد 60 کروڑ ترقیاتی مد میں آتے ہیں جس سے ماضی میں اس فنڈز سےترقیاتی منصوبے مکمل کیے جاتےتھےمگراب توباوا آدم ہی نرالاہے
اس رقم کا 50 فیصد ایڈمنسٹریٹر ، میونسپل کمشنر اور اکائنٹس والے کھاجاتےہیں 20 فیصد سسٹم میں اور 10 فیصدچھوٹےعملےمیں بٹ جاتاہے باقی 20 فیصد ٹھیکیداروں کوادائیگیوں میں چلاجاتاہے ٹھیکیداروں کوادائگی بھی ان افسران کی پسندیدہ ترجیح ہوتی ہے کیونکہ انہیں حتمی ادائگی کے وقت بھی بھاری کمیشن ملتاہے یہی وجہ ہے کہ کبھی روشنیوں کا شہر کہلانےوالے کراچی کی اب ہر ڈی ایم سی میں مسائل کےانبار لگ چکےہیں شہر کی ان ڈی ایم سیز میں فنڈز کی کھلے عام خردبرد کی وجہ سےبدعنوان افسران کےایک ٹولہ میں ایڈ منسٹریٹر اور ایم سی کےلئے دوڑ لگی ہوئی ہے ایک اگر کروڑ دے کرتقرری حاصل کرتاہےتودوسرا سواکروڑ کی پیش کش کردیتاہے اور یوں ایڈ منسٹریٹر اور میونسپل کمشنر کے عہدوں کے حصول کی زبردست جنگ جاری ہے جس میں رحمت اللہ شیخ، اخترشیخ ،وسیم سومرو، امتیاز پھلپوٹو، اقبال احمد میرانی، اسلم قاضی، عبدالحلیم جاگیرانی، سرور راہوپوٹو ،فہیم خان ،افشاں رباب ،طہ سلیم، زاہد حسین ،گل حسین جوکھیو اورریاض حسین سرفہرست ہیں اور ان افسران کی اکثریت گھوم پھرکرکسی نہ کسی ڈی ایم سی میں تقرری حاصل کرلیتی ہیں اور یہ بھی کمال ہے عکس قائد اعظم کا کہ اگر 3 ماہ ایک ڈی ایم سی میں ایڈ منسٹریٹر ہیں جوادارے کاسربراہ ہوتاہےتو ہٹائے جانے کے بعد اگلی مرتبہ وہ میونسپل کمشنرکی تقرری حاصل کرکے فخریہ افسری جھاڑ رہے ہوتے ہیں اور اسے بھی غنیمت سمجھ کر بجٹ پرہاتھ صاف کرہےہوتےہیں ان افسران کی اس کھلی کرپشن کی وجہ سے اب اکثر ڈی ایم سیز میں تنخواہوں کابحران ہے خصوصاً ریٹارڈ ملازمین کی پنشن توایک ڈرائوناخواب بن کررہ گیاہے اور وہ کئی سالوں سے مارے مارے پھررہےہیں یہ بدعنوان افسران کسی بھی تنقید پر برملا کہتے ہیں ہم 80 لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ دیکرآتے ہیں پھر سرکاری فنڈز سے اگر ترقیاتی کام کروائیں توتقرری کی دی گئی قیمت کیسے نکلے گی پیسے کی اس دوڑ کاعالم یہ ہے کہ وسیم سومرو 4 ماہ قبل ڈی ایم سی کیماڑی کےایڈ منسٹریٹرتھے تو ان کے گردے فیل ہوگئے وہ کلفٹن کے مہنگے ترین اسپتال میں داخل ہوگئے ان کی بیماری کےسبب سندھ حکومت نے انہیں ہٹاکر اشفاق ملاح کوایڈ منسٹریٹر لگادیا وہ اسپتال کےبیڈ سے گردوں کی دھلائی ادھوری چھوڑ کروزیر کےگھرپہنچ گئےاور دہائی دینے لگےکہ میری توابھی اصل رقم بھی وصول نہیں ہوئی تھی کہ مجھے ہٹادیاگیا اور یوں دہائیاں دیکر انہوں نے دوبارہ تقرری حاصل کرلی اب بھی فیل گردوں کے ساتھ وہ لڑ جھگڑ کرکوئی نہ کوئی تقرری حاصل کرلیتے ہیں کراچی کےشہری اداروں میں کروڑوں روپیہ کے ماہانہ فنڈز کی جس طرح بندر بانٹ ہورہی ہے اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی جبکہ ہرڈی ایم سی میں ہر 3 ماہ بعد ایڈ منسٹریٹر یا میونسپل کمشنر تبدیل کردیاجاتاہے
اور پیسے پورے نہ ہونے پر اکثر افسران میں تلخ کلامیاں چھوٹی موٹی مارکٹائی اور ایک دوسرے کےخلاف خبریں لگوانے کی دوڑ جاری رہتی ہے اسی طرح ضلع غربی کاپیٹ پھاڑکربنائے گئے نئے ضلع کیماڑی میں نیب کیس کے سب سے بڑے ملزم جاویدقمر کو ڈائرکٹر ایڈمن مقرر کردیا گیاہے یہ وہ افسرہے جس کے گھر سے نیب چھاپےمیں ڈیڑھ کروڑ سے زائد برآمد ہوئےتھے جبکہ اس کے دوبینک اکانٹس میں بھی 5 کروڑ سے زائد کی رقم کے انکشاف پردونوں اکائونٹس سیل کردئےگئے تھے ہنوز سیل ہیں اس کی بدعنوانی کاکیس نیب عدالت میں زیرسماعت ہے اور ٹھوس ثبوتوں کی وجہ سے سزابھی یقینی ہے مگرپھربھی اسے اہم تقرری دیدی گئی ہے ملزم جاوید نے حال ہی میں سابق ایڈ منسٹریٹر امتیازپھلپوٹو کےتبادلے کےفورن بعد ان کے جعلی دستخط کرکے 60 لاکھ خرد برد کرلئے جس کی تفتیش کےدوران پی پی کےکیماڑی سےرہنما اور وزیراعلی کےمشیر آصف خان نےبینک سے وڈیوریکارڈ نکال کر سیکریٹری بورڈ کوپیش کردی اور اسے معطل کروادیا مگر چندروز بعد وہ جادو کی چھڑی گھماکر پھر بحال ہوگیا۔