کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی میں لوکل گورٹمنٹ کا ایک ایسا انوکھا، لاڈلہ آفیسر ہے جو ڈیڑھ سال قبل ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے باوجود ایڈمنسٹریٹر کراچی کی آشیر باد پر اپنے عہدے پر براجمان ہے، جو سپریم کورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد ایک دن کی بھی توسیع نہیں دی جا سکتی۔ کاغذات میں ٹمپرنگ کی تصدیق کے باوجود نہ تحقیقاتی ادارے، نہ محکمہ بلدیات سندھ، نہ کوئی قانون، نہ عدالت اختر علی شیخ میونسپل کمشنر بلدیہ جنوبی کے خلاف تاحال کاروائی کرسکا۔ وہ 5 مئی2021ء کو ملازمت سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن نیب کراچی، اینٹی کرپشن اوردیگر تحقیقاتی اداروں نے بھی اس معاملے میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے کیونکہ انہیں اپنے حصہ کا مال مل رہا ہے۔ اختر علی شیخ کادعوی ہے کہ اس کی تاریخ پیدائش 5 مارچ 1964ء ہے جس کی کوئی قانونی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ عدالت میں گذشتہ ڈیڑھ سال سے ان کے کیس کی سماعت ہی نہیں ہورہی اور تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے عدالت میں تارٰیخ پر تارٰیخ لی جارہی ہے۔ لوکل گورٹمنٹ بورڈ نے عدالت میں واضح کردیا ہے کہ اختر علی شیخ کی ملازمت 21 مئی 2021ء تک ختم ہوگئی ہے اور وہ قانون و سروسز رولز کے برخلاف غیر قانونی تعینات ہیں۔ ان کے کمپیوٹرائز شناختی کارڈ، میٹرک کی سند سمیت دیگر دستاویزات بھی قانون کے مطابق موجود ہیں۔ سروس کے دوران جمع اپائمنٹ لیٹر، سروس بک، درجنوں آڈر، گریڈ 17، گریڈ 18، گریڈ 19 کی سینیارٹی لسٹ سمیت تمام کاغذات، تمام ثبوت اور دستاویزات موجود ہیں، جن کو ٹمپرنگ کرکے تبدیل کیا گیا ہے، جبکہ رولز 12-A/2012 کے تحت تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ محکمہ لوکل گورٹمنٹ بورڈ نے 17 فروری2021ء کو ریٹائرمنٹ کے جاری ہونے والے آڈر پر سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کررکھا ہے۔ کراچی میں 5 مئی2021ء کو ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے والا میونسپل کمشنر بلدیہ جنوبی اختر شیخ تاحال غیر قانونی طور پرعہدے پر براجمان ہے اور اجلاس، دورے، دفتر میں باقاعدگی سے کام کررہے ہیں، فائلیں پر دستخط کررہے ہیں، کنٹریکٹرز کے چیک کی ادائیگی کا سلسلہ بھی تاحال انہی کے دستخط سے جاری کیا گیا ہے۔ بلدیہ جنوبی کے افسران نے اس غیر قانونی عمل کے باوجود خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ فنانس افسران اور آڈٹ کے ساتھ کئی افسران و عملے نے کام سے روکنے کی استدعا مسترد کردی ہے کیونکہ چمک میں وہ سب شامل ہیں۔اس بارے میں اختر شٰیخ کا کہنا ہے کہ سیکریٹر ی بلدیات سندھ نجم احمد شاہ نے انہیں عدالت کے فیصلے تک کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس تحریری حکمنامہ ہے تو انہوں نے انکار کردیا ہے۔ کراچی میں اشتہاری بورڈ کے نگران آج بھی ڈیڑھ سال قبل ریٹائرڈ ہونے والے اختر علی شیخ کررہے ہیں، جن کے سرپرست مرتضی وہاب ایڈمنسٹریٹرکراچی بن گئے ہیں جن کے دفتر میں اختر شیخ رات گئے تک بیٹھے رہتے ہیں۔ محکمہ بلدیات سندھ کے ریکارڈ فائل اور سروسز بک میں اخترعلی شیخ کی تاریخ پیدائش 5 مئی 1961ء کو ضلع خیرپور تحریر ہے۔ وہ 22 اکتوبر 1990ء میں سرکاری ملازمت پر تعینات ہوئے اور کراچی میں وہ ضلعی بلدیات، بلدیہ عظمی کراچی سمیت دیگر بلدیاتی اداروں میں کام کرتے رہے ہیں۔ سندھ لوکل گورنمنٹ بورڈ کے ڈائریکٹر نوروز خان عباسی کے دستخط سے دسمبر 2020ء ایس سی یو جے ایڈمن افیسر گریڈ 19کی میرٹ لسٹ جاری کی گئی تھی جس میں اختر شیخ کی ملازمت سے ریٹائرڈمنٹ کی تاریخ 5 مئی2021ء درج ہے۔ سروسز رول کے تحت ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے والے افسران اور ملازمین تاریخ پیدائش سے ہوتے ہیں۔ ان کی گریڈ 18 یکم مارچ 2006ء اور گریڈ 19 میں تعیناتی 5 نومبر 2011ء درج ہے۔ میرٹ لسٹ میں ان کی تعلیمی قابلیت گریجویٹ و ماسٹر لکھی گئی ہے۔ اختر علی شیخ کے خلاف آوٹ ڈور ایڈورٹائزنگ میں گھپلوں، من پسند افراد کی تعیناتیوں، اقرباء پروری، اختیارات سے تجاوز و ناجائز استعمال سمیت سنگین مالی بے قاعدگیوں کے الزامات پر تحقیقات بھی ہوتی رہی ہیں لیکن چمک نے متعدد تحقیقات کو سرد خانے کی نذر کردیا۔ وہ کئی دفعہ مالی بے ضابطگیوں کے الزامات پر ملازمت سے معطل ہوچکے ہیں لیکن چمک عرف عام میں رشوت کے بل بونے پر فوری بحال بھی چکے ہیں، تاہم سابق صوبائی محتسب اعلیٰ سندھ اسد اشرف ملک نے سنگین بدعنوانی میں محکمہ بلدیات کو اختر علی شیخ کو ملازمت سے برطرف کرنے کا حکمنامہ جاری کیا تھا جس پر محکمہ بلدیات سندھ نے عملدرآمد ہی نہیں کیا اور کاروائی کو سرد خانے کی نذر کر دیا تھا۔ لوکل گورٹمنٹ بورڈ نے ایس یو جی افسران کی میرٹ لسٹ جاری کی تھی،جس میں 22 افسران کے نام بھی شامل ہیں۔فہرست کے مطابق 5 مئی 2021ء کواختر شیخ ملازمت سے ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ملازمت جاری رکھتے ہوئے ایک نیا تاریخی ریکارڈ بنالیا ہے۔ اس حوالے سے ایک افسر کا کہنا ہے کہ فرائض کی ادائیگی جاری رکھنا اور سرکاری وسائل پر قبضہ جمانا تعزیرات پاکستان کی دفعات میں جرم ہے اور ایسا کرنے والے افسر پر کئی جرائم میں مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اختر شیخ اور اس کے رشتہ داروں کے جرائم اور سرکاری وسائل کو لوٹنے کا عمل جاری ہے۔ اس حوالے سے ایڈمنسٹریٹر بلدیہ جنوبی نے بھی اختر شیخ کی ریٹائرمنٹ سے لاعملی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ حکومت سے رابطہ کا مشورہ دیا ہے جبکہ بلدیہ جنوبی کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اختر شیخ جرائم کا بے تاج بادشاہ ہے اور اس کی نگرانی میں سرکاری وسائل کی لوٹ مار عروج پر ہے۔ اختر شیخ کے کارنامے پر محکمہ بلدیات سندھ کو نوٹس لینا چاہیے ورنہ حکومت کی رٹ ختم ہو جائے گی اور سرکار وسائل کی لوٹ مار داستان ہی بنی رہے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اختر شیخ جعلی خطوط اور عدالتی حکمنامہ پر ٹیمپرنگ کا ماہر ہے۔ اپنے رشتہ داروں کی سرکاری ملازمت میں تقرری بھی جعل سازی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے بیٹے ندیم شیخ کی جعلی کاغذات پر تقرری اور تعیناتی کی گئی ہے۔ محکمہ بلدیات سندھ ندیم شیخ کے ملازمت کا خط جعلی قرار دے چکا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے ان کے وہاں ملازم نہ ہونے کی تصدیق کردی ہے۔ ایک جعلی حکمنامہ پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سے کالعدم صدر ٹاون(موجودہ بلدیہ جنوبی) میں تقرر کیا گیا تھا جہاں ندیم شیخ نے گریڈ 18 میں ترقی کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈائریکٹر پلاننگ کے عہدے پر تعینات ہیں۔ ندیم شیخ سابق سیکریٹری بلدیات سندھ روشن شیخ کے بہنوئی بھی ہیں۔ موجودہ سیکریٹری سندھ نجم شاہ پر سابق سیکریٹری بلدیات روشن علی شیخ کے بہنوئی، میونسپل کمشنر بلدیہ جنوبی اختر علی شیخ کے بیٹے ندیم شیخ کی وجہ شدید دباؤ تھا اور وہ یہ پنڈورا بکس نہیں کھولنا چاہتے ہیں۔ روشن علی شیخ اور اختر علی شیخ کے رشتہ داروں کی تقرریاں بھی جعلی اور بوگس آڈر پر کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ محکمہ بلدیات سندھ کا ایک انو کھا کارنامہ،بوگس، جعلی ملازم 9 سال سے معذور ہونے کے باوجود گریڈ 18میں ترقی کر گیا۔ وہ نہ دفتر آیا نہ کام کرتے ہوئے کسی نے دیکھا نہ کسی نے تعیناتی کو چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر پانچ مرتبہ ملازمت کی چھان بین کے باوجود تنخواہ کے ساتھ تمام مراعات وصول کررہا ہے۔ معذور ہونے کے بعد دو گاڑیاں بھی الاٹ کی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ سابق سیکریٹری بلدیات سندھ روشن شیخ جن کو بدعنوانی کے الزام میں سندھ بدر کیا گیا ہے، اس بارے میں ان کے رشتہ دار محمد ندیم شیخ ولد اختر علی شیخ کی تقرری محکمہ بلدیات میں ایک چیلنج اور سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ ندیم شیخ 2012ء میں کلفٹن کے علاقہ میں حادثہ کے دوران گولی لگنے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہوچکے ہیں اور اپنے گھر میں ہیں۔انہیں 10سال سے ملازمت پر کسی نے نہیں دیکھا، لیکن ان کی تنخواہ اختر علی شیخ وصول کررہے ہیں اور اگلے گریڈ میں ترقی بھی میونسپل کمشنر کی حیثیت سے انہوں کی تھی۔