(تحریر:نذیرلغاری)
یورپ شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔پیداوارمیں ایک بڑازوال اُبھرکر سامنے آیا ہے۔افراط زر میں اس قدر اضافہ کے بارے میں کبھی تخمینے نہیں لگائے گئے تھے۔معاشی کساد بازاری دس بارہ سال پہلے کی معاشی بے کیفی سے زیادہ پریشان کن حالت تک پہنچ چکی ہے۔ترقی یافتہ یورپی ممالک ماضی میں کبھی افراطِ زر کے بحران کے اس قدر شکار نہیں ہوئے، جس قدر وہ 21ویں صدی کی رواں عشرے میں افراطِ زر کے بحران میں مبتلا ہوئے۔یورپی ممالک میں افراطِ زر کی موجودہ صورتحال ایک بڑے معاشی بحران کو دعوت دے رہی ہے۔برطانیہ اگرچہ یورپی یونین سے نکل چکا ہے مگر برطانوی معیشت کا دائرہ یورپی ممالک کی معیشت کے بڑے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔برطانیہ، جرمنی اوراٹلی تین ایسے ممالک ہیں جہاں افراطِ زر دو ہندسوں کو عبور کرچکی ہے۔برطانیہ میں افراطِ زر 10.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ شرح گزشتہ چالیس کی بلندترین سطح ہے۔جرمنی میں افراطِ زر 10.4فیصد تک چلی گئی ہے۔مغربی اور مشرقی جرمنی کے انضمام کے بعد افراطِ زر کی یہ بلندترین سطح ہے۔اٹلی میں افراطِ زر گزشتہ 38 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔اٹلی میں افراطِ زر 11.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔یونان میں افراطِ زر 9.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔جبکہ اسپین میں افراطِ زر 8.9 فیصد پر موجود ہے۔سوئیٹزرلینڈ میں بھی 2020 کے موسمِ سرما میں افراطِ زر میں اضافہ کا سلسلہ شروع ہوا اور وہاں پر افراطِ زر 7.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
یورپ کی جمی جمائی معیشتوں میں حالیہ انحطاط کوئی تازہ واقعہ نہیں ہے۔مگر حیران کن بات یہ ہے کہ معاشی انڈیکیٹر جو صورتحال پیش کرتے ہیں وہ حالات کو 2010 کی معاشی کساد بازاری سے بھی زیادہ ابتر ظاہر کرتے ہیں۔اگر برطانیہ میں افراطِ زر چالیس سال، اٹلی میں 38سال اور جرمنی میں 32 سال کی شرح عبور کرچکی ہے تو صورتحال کواطمینان بخش تو بالکل نہیں کہا جاسکتا۔
مزید برآں یورپ میں جس قدر افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے اسی حساب سے مہنگائی اور اشیاء صرف کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔یورپ کے حالات ایک ایسی کساد بازاری اور معاشی بے کیفی کی طرف بڑھ رہے ہیں جوعرب شہزادوں کی فیاضانہ سرمایہ کاری سے بھی سنبھالی نہیں جاسکے گی۔اب دیکھنا یہ ہے یورو زون کی 34 کروڑ آبادی کن معاشی مشکلات کا شکار ہونے والی ہے اور ان مشکلات سے نمٹنے کیلئے کیا ذرائع اختیار کئے جائیں گے۔ دس بارہ سال میں دنیا کو بالعموم اور یورپ کو بالخصوص لگنے والا ایک اور بڑا معاشی جھٹکا کن حالات کا شکار کرتا ہے یہ رواں صدی کے نصف آغاز کا ایک بہٹ بڑا سوال ہے۔موجودہ حالات میں کیا یہ سمجھا جانا چاہیئے کہ سوویت یونین کے زوال اور کمیونزم کے انہدام کے کیا سرمایہ داری بطور نظام ناکامی کا منہہ دیکھنے والی ہے اور کیا دنیا میں دیگر مملکتوں کے انہدام اور وسائل کی بندربانٹ کاکوئی سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔
آیئے ہم ایک نظر یورپ میں پیداوار میں کمی کے حالات اور اعداوشمار پر ایک نظر ڈال لیں۔برطانیہ میں اگست 2022ء تک گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں پیداوار میں 1.5 فیصد کمی واقع ہوئی۔ وہاں جن شعبوں میں پیداوار میں کمی واقع ہوئی ان میں کان کنی اور کھدائی کے شعبہ میں 2.7 فیصد، مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں 2.2 فیصد جبکہ تیل اور گیس کے شعبہ میں 3.5 فیصد کمی واقع ہوئی۔اس کانتیجہ مہنگائی اور ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت میں نکلا۔غذائی اجناس، ایندھن اور توانائی کے شعبوں میں بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بھی پیداوار پر اپنے اثرات مرتب گئے۔ ان حالات نے عام صارفین کو بُری طرح متاثر کیا۔
جرمنی میں رواں سال کے ماہ جنوری سے اگست تک لوہاسازی کی صنعت کی پیداوار میں 4.8 فیصد کمی واقع ہوئی۔اس طرح جرمنی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 28 لاکھ 70 ہزار ٹن اسٹیل کی کم پیداوار حاصل ہوئی۔اس کانتیجہ یہ نکلا کہ توانائی کے توسیعی شعبہ کی صنعت مثلاً کیمیکل یا دھاتوں کی پیداوار میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔
اٹلی میں گزشتہ نو ماہ کے دوران آتو موبائل کی پیداوار میں قابلِ ذکر کمی واقع ہوئی۔اعداوشمار کے مطابق اس عرصے میں پانچ لاکھ، پندرہ ہزار380 کم گاڑیاں بنائی گئیں۔رواں سال کے پہلے نصف میں پیداوار میں کمی نے ٹرانسپورٹ کی صنعت کو شدید متاثر کیا تھا۔اسی طرح اسپین اور یونان میں پیداوار میں کمی سے معیشتوں کو جھٹکوں کا سامنا رہا۔اس عرصے میں اسپین کا مالیاتی بوجھ، افراطِ زر اور معیشت کی زبوں حالی کا سامنا رہا جبکہ یونان میں الیکٹرک کے شعبہ میں 11.5- فیصد، پانی کی فراہمی کے شعبہ میں5- فیصد اور کان کنی کے شعبہ میں 3- فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
ہمیں یہ بات پیشِ نظررکھنا ہوگی کہ پالیسیوں کی سخت گیری پیداوار میں مزید کمی کا سبب بنے گی۔پالیسی ساز جب افراطِ زر اور قیمتوں میں اضافہ کے خلاف میدان میں اُتریں گے تو انہیں غیرلچکدار پالیسیوں کی راہ اختیار کرنی ہوگی جس سے سارا بوجھ صارفین پر پڑے گا اور وہ پہلے سے زیادہ مشکلات کا شکار ہوں گے اور یہی سرمایہ داری کا کمال ہے کہ وہ اپنے اوپر رکھے بوجھ کو اتار کر عام صارف کے سر پر رکھ دیتی ہے۔ سسٹم نے اپنے نقصانات پورے کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے اقدامات کے عام آدمی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
تین دہائیاں پیشتر1990ء کے عشرے کے سوویت یونین اور 2022ء کے یورپ کے حالات میں کوئی مماثلت نہیں۔مگر یہ حقیقت ہے کہ تیس بتیس سال پہلے سوویت یونین رقبہ کے اعتبار سے بڑا ملک تھا۔اس کرۂ ارض کا دوکروڑ 24 لاکھ مربع کلو میٹر پر قائم یہ ملک دنیا کے چھٹے بڑے حصے کو گھیرے ہوئے تھا۔اس کے پاس دنیا بھر میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار موجود تھے، بلاشبہ یہ ہتھیار ہزاروں کی تعداد میں تھے بلکہ بعض ماہرین کے سوویت یونین کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔اس کا اثرورسوخ پورے مشرقی یورپ تک پھیلا ہواتھا۔معاہدۂ وارسا میں شامل یورپی ممالک سوویت یونین کے دفاعی اتحاد کا حصہ تھے۔اس ساری صورتحال کے باوجود ایک سال سے بھی کم عرصے میں سوویت یونین کا انہدام ہوگیا اور مغربی سیاسی اور معاشی ماہرین اسے نظریہ کا انہدام کہنے لگے۔مغربی ماہرین اسے نظریاتی ناکامی کے ساتھ ساتھ معاشی اور بیوروکریٹک ڈھانچہ جاتی ناکامی بھی قرار دینے لگے۔ اس کے برعکس یورپ کے بائیں بازو کے اکابرین اور دانشور اسے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے آخری سیکریٹری جنرل میخائیل گورباچوف کی سازش، انقلاب دشمنی اور سامراج دوستی کا نتیجہ قرار کہنے لگے۔میخائیل گورباچوف 11 مارچ 1985ء کو سوویت کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل بنائے گئے۔اس وقت "آزاد دنیا” سوویت یونین کو افغانستان میں گھیرے ہوئے تھی۔امریکہ 1950ء سے ایک ایسی سوویت یونین کے خلاف ایک ایسی نظریاتی، غیرنظریاتی، مذہبی، غیرمذہبی، نفسیاتی غیرنفسیاتی، عملی غیرعملی، تعلیمی غیرتعلیمی، حقیقی غیرحقیقی سرد جنگ لڑ رہا تھا جو نظریاتی طور پر سوویت یونین کے خلاف تھی اور حقیقی طور پر یہ ایک غیراعلانیہ عالمی جنگ تھی جو دنیا کے کونے کونے میں لڑی جا رہی تھی۔ایک طرف انتہائی مغرب میں چلی کے جنرل پنوچہہ اس جنگ کے سامراجی سپاہی تھے اور دوسری طرف انڈونیشیا کے جنرل سوہارتو اس جنگ میں کرائے کے ٹٹو کا کام کر رہے تھے۔ادھر جنوبی ایشیاء میں جنرل ایوب، جنرل یحی اور جنرل ضیاء سردجنگ کے گرم محاذوں پر اپنی خدمات پیش کر رہے تھے۔ایسے میں آخری گرم محاذ افغانستان نے جنرل ضیاء نے سوویت یونین کو انگنت زخم لگائے اور پھر آخری مرحلے پر "آزاد دنیا” کو گورباچوف جیسا آلۂ کار مل گیا جس نے اپنے کھلے پن اور تعمیرنو کے منصوبوں سے سوویت یونین کی بنیادیں ہی کھود ڈالیں۔ان حالات میں چین نے اپنا ریاستی ڈھانچہ اور پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ برقرار رکھتے ہوئے چینی خاصیت کے ادغام سے نئے سفر کا آغاز کیا۔یورپ کے بائیں بازو کے دانشوروں کے مطابق سوویت یونین کا انہدام گورباچوف کی نظریاتی غداری کے باعث ممکن ہوا جبکہ چین نے نظریاتی ثابت قدمی، ریاستی استقلال، اور تنظیمی کمٹ منٹ کے ساتھ ترقی کا شاندار سفر کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ 1992ء کے اختتام پر سوویت یونین کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے والی "آزاددنیا” یکے بعد دیگرے عالمی کساد بازاری کا شکار ہوتے ہوئے اپنے سرمایہ دارانہ طرزِحیات کو کیسے بچا پائے گی۔کیا اب ایسے حالات پیدا نہیں ہوگئے جب کرۂ ارض کی بقا کے ضمن میں نئے سنجیدہ سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔کیا یورپ کی کساد بازاری کی صورتحال امریکہ،اسٹریلیا، کینیڈا اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر دنیا کا رُخ نہیں کرے گی۔کیا آنے والا سال دنیا کیلئے نئے نئے بڑے سوال لے کر نہیں آرہا۔