کراچی(رپورٹ۔اسلم شاہ) سندھ ہائی کورٹ کی ڈبل بینچ نے ڈائریکٹر جنرل ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے دو افسران کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکم امتناعی جاری کر دیا اور انہیں ملازمت پر بحال کرتے ہوئے 9 دسمبر 2022ء تک ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے جواب طلب کرلیا ہے۔ ایسی طرح کے کیس میں دو اور افسران نے اپنی غیر قانونی برطرفی کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا۔ نئے ڈائریکٹر جنرل MDA یاسین شر بلوچ جو خود مقامی نہیں ہیں، انہوں نے کراچی کے مقامی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ دیگر مقامی افسران کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بناتے ہوئے شہری ادارہ کے اصل ملازمین کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بدعنوان اور جرائم پیشے افراد کی تعیناتی کے ساتھ اینٹی کرپشن میں بعض امور پر تحقیقات کی غیر قانونی ہدایت اور احکامات صادر کئے تھے، جس کے نیتجے میں ایک طرف خوف و ہراس پھیلنے کی وجہ سے MDA میں کام بند ہو گیا اور دوسری طرف اربوں روپے شہریوں کی الاٹ شدہ زمینوں پر لینڈ مافیا کا قبضہ تیزی سے جاری ہے بلکہ درپردہ ان قبضہ مافیا کو مبینہ طور پر ڈی جی کی آشیر باد حاصل ہے۔ عدالت نے پہلے ہی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سہیل خان کے خلاف تمام حکمنامہ منسوخ کرتے ہوئے عہدے پر بحال کیا تھا۔ڈی جی کے تمام حکمنامہ کو انتقامی کاروائی قرار دیا گیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس آغا فیصل اورجسٹس جیند غفور پر مشتمل ڈبل بینچ نے ایک آئینی درخواست پر اپنے حکمنامہ میں ڈائریکٹر جنرل MDA یاسین شر بلوچ کے تمام اقدمات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ڈائریکٹر اسٹیٹ اینڈ انفورسٹمنٹ اخترعلی میئو (گریڈ18)، اور ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ و چیف انجینئر شاہد محسن (گریڈ19) کو عہدے پر بحال کرتے ہوئے تمام جاری حکمنامے کو منسوخ کردیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ بلدیاتی و شہری ادارے کے افسران ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے حکم پر ایم ڈی اے میں ملازمت میں ضم کیا گیا تھا اور اس حوالے سے تمام قانونی تقاضے پورے کیئے گئے تھے۔ عدالت میں دونوں افسران نے یہ موقف اخیتار کیا تھا کہ وہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 137 مستقل ملازمین میں شامل ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے احکامات پر ادارے میں ضم کیا گیا تھا،جسے کسی ایم ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے ایک حکمنامہ پر ملازمت سے برطرف نہیں کیا جاسکتا۔ ادارے کے باہر سے آنے والے غیر مقامی افسر کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ وہ ادارے کے مستقل ملازمین کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بناتے ہوئے ملازمت سے برطرف کر دیں۔ نئے ڈائریکٹرجنرل یاسین شر بلوچ کی جانب سے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سہیل خان جو ادارہ (MDA) کے مستقل ملازم ہیں، انہوں نے چارج سنبھالنے کے فوری بعد ان کی تنخواہ روک دی، گاڑی واپس لے لی، پیٹرول بند کر دیا اور گھر خالی کرنے کا حکمنامہ جاری کیا تھا۔اس طرح انہوں نے بلاجواز انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا تھا، جبکہ رولز کے مطابق افسران کو دی گئی مراعات ریٹائرمنٹ تک واپس نہیں لی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کی سہولیات کو روکا جاسکتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس آغا فیصل اور جسٹس جیند غفور پر مشتمل ڈبل بینچ نے ایک آئینی درخواست نمبر C,P No,D-6623/2022 نے اپنے حکمنامے میں ڈائریکٹر جنرل MDA یاسین شر بلوچ کے تمام اقدمات و احکامات کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے دو بڑے کی لڑائی میں ادارے کے ایم ڈی یاسین بلوچ نے سیکریٹری بلدیات سندھ سید نجم شاہ کو ایک گمراہ کن خط لکھ کر انہیں ادارے کے بارے میں غلط حقائق پیش کرتے ہوئے گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جن امور کو عدالت عظمی نے طے کردیا تھا اس کو بھی متنازعہ بنا نے کی کوشش کی ہے۔ سہیل خان کو پہلے بھی ڈھائی تین سال تک تعیناتی نہیں دی گئی تھی۔ اس دوران ایک منظم اندارز میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تیسر ٹاون اسکیم 45 کی تقریبا 14 ہزار ایکڑ اراضی پر قبضہ کرکے سرکار کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا تھا۔ تیسر ٹاون کے ساتھ نیوملیر ہاؤسنگ اسکیم کے ہزاروں الاٹیز کے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ڈوب جانے کے خدشات پیدا ہوچکے ہیں۔کراچی سسٹم اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر لینڈ گریبرز نے انتظامیہ کی غفلت و لاپرواہی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کی مجموعی طور پر کھربوں روپے مالیت کی 14 ہزار 4 سو 66 ایکڑ اراضی کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے، جبکہ اس میں سے قرعہ اندازی اور نیلامی کے ذریعے لوگوں کو الاٹ کیے گئے 78 ہزار 291 رہائشی پلاٹس پر لینڈ مافیا نے کچے پکے، 43 گوٹھوں کے نام پر مکانات بنا کر قبضہ کر لیا ہے۔ اس بات کا انکشاف ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے صوبائی حکام کو بھیجی گئی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ سہیل خان کے بطور ڈی جی تقرری کے بعد 1180 ایکڑ اراضی لینڈ مافیا سے واگزار کرواکر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی تھی، لیکن اب لیئق احمد، عرفان بیگ، آغا زبیر، عبدالروف بلوچ، علی اسد بلوچ، عبدالعیم اخوند سمیت دیگر بدعنوانی اور جرائم میں ملوث افراد کو ادارہ میں دوبارہ اہم عہدوں پر تعینا ت کیا گیا ہے، جبکہ سیون ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے گریڈ 14 کے عارضی ملازم آغا زبیر کو 6 اکتوبر 2022 میں تعیناتی کو غیر قانونی عمل قرار دے کر اس کی نشاندہی کی گئی ہے،اور 7 جولائی 2022ء کو ایک حکمنامہDG.MDA./2022/L-1854 کو ان کا حکمنامہ منسوخ کردیا گیا تھا لیکن اب ان کو دوبارہ تعینات کردیا گیا ہے جو غیر قانونی عمل ہے اور مقامی ملازمین کے ساتھ شدید ظلم ہے۔ سہیل خان نے ایڈیشنل ڈی جی کی حیثیت سے تمام ڈپارٹمنٹ کے سربراہوں کو ایک خط کے ذریعہ اگاہ کیا ہے کہ وہ ادارے میں موجود قانون، قواعد و ضوابط کے ساتھ عملدرآمد کو انتظٓامی، مالیاتی خاص طور فنڈز کے اخراجات کو یقینی بنائیں۔ ایسے کسی بھی قسم کے پسند نہ پسند اور زبانی احکامات پر عملدرآمد سے اجتناب برتیں جس سے انکوائریز، انوسٹی گیشن یا عدالت کا جوابدہ اور اس کا سامنا کرنا پڑے۔خلاف ورزی کرنے والا اس کا خود ذمہ دار ہو گا۔ اینٹی کرپشن کی تحقیقات میں ڈائریکٹر جنرل یاسین شر بلوچ نے ثبوت اور شواہد پیش نہیں کیئے ہیں اس لیئے ان الزامات پر اینٹی کرپشن پولیس تحقیقات کرنے سے قاصر ہے۔