لاہور( بیورو رپورٹ )
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ توشہ خانہ ہو یا قومی خزانہ حکمرانوں کا رویہ ہمیشہ مجرمانہ رہا۔ اقتدار کے ایوانوں سے ایسی ایسی کہانیاں منظرعام پر آرہی ہیں کہ ملک پوری دنیا میں تماشا بن گیا۔ قومی خزانہ لوٹنے کا ایک تسلسل رہا ہے، سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے ہاتھ لوٹ مار سے رنگے ہوئے ہیں۔ حکمران اشرافیہ کے نام پانامہ لیکس اور پنڈوراپیپرز کی زینت بنے، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اربوں کے قرضے لیے اور معاف کروائے۔ توشہ خانہ ریاست کی امانت ہے، کوئی حکمران وہاں سے کچھ لینا چاہے تو مارکیٹ ریٹ کے مطابق پوری قیمت ادا کرے، توشہ خانہ کا مکمل ریکارڈ پبلک کیا جائے، قوم کو جاننے کا حق ہے کہ کس نے کس قیمت پر کیا لیا؟ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی سیاست جنرل کی تعیناتی کے گرد گھوم رہی ہے۔ جماعت اسلامی کی تجویز ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے لیے چیف جسٹس کی تعیناتی کی طرز پر پارلیمنٹ کے ذریعے قانون تشکیل دے دیا جائے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ مہذب دور میں کسی بھی ادارے میں اہم شخص کی تعیناتی ایک فرد نہیں کرتا بلکہ اس کا طریقہ کار وضع ہے۔ وزیراعظم کے ذریعے آرمی چیف کی تعیناتی کے ماضی کے تجربات سے نقصان ہوا۔ انتخابی اصلاحات، سویلین بالادستی اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے غیرجانبداری پر نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔ حکمران جماعتیں جمہوریت کی مضبوطی چاہتی ہیں تو سنجیدگی دکھائیں اورتین نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات کا آغاز کریں۔ الیکشن بحران سے نکلنے کا واحد راستہ، مگر اصلاحات کے بغیر انتخابات ہوئے تو بے چینی اور بحران میں اضافہ ہو گا، کوئی نتائج تسلیم نہیں کرے گا۔ الیکشن سے قبل الیکشن کمیشن کو مالی اور انتظامی لحاظ سے خودمختار، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے آزاد کرنا ہو گا۔ نہیں لگتا کہ حکمران جماعتیں سٹیٹس کو کا خاتمہ چاہتی ہیں، اداروں کو آزاد نہیں بلکہ اپنے تابع رکھنا ان کا مقصد ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ثمرباغ، دیر پائن میں مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ امیر ضلع اعزاز الملک افکاری بھی اس موقع پر موجود تھے۔
سراج الحق نے کہا کہ موجودہ اور سابقہ حکومتیں ملک کے تمام مسائل کی ذمہ دار ہیں، یہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر سیاست نہیں کر سکتے۔ حکمران جماعتیں ڈلیور کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئیں، ان کے لانگ مارچز کے مقاصد کا بھی سب کو پتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت پورے ملک میں افراتفری اور بے چینی ہے۔ معیشت تباہ، عوام حالات سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں۔ ملک اور خصوصاً خیبر پختونخواہ میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ کراچی، اندرون سندھ اور بلوچستان بھی مسائل کے انبار بنے ہوئے ہیں۔ ملک میں آئین و قانون کی نہیں افراد اور خاندانوں کی حکمرانی قائم ہے۔ حکمران اشرافیہ نے قوم کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ نوجوانوں کے لیے تعلیم مہنگی کر دی گئی ہے، ڈھائی کروڑ بچے غربت کی وجہ سے سکولوں سے باہر ہیں، خزانہ خالی، 85فیصد عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ موجودہ اور سابقہ حکومتوں نے ملک کی بہتری کا کوئی پلان مرتب نہیں کیا۔ سیلاب متاثرین بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ تین ماہ گزر گئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے متاثرین کی بحالی کے لیے کوئی پلان نہیں دیا۔ غیرملکی اور سرکاری امداد کا کچھ اتا پتا نہیں کہ کہاں خرچ ہو رہی ہے۔
امیر جماعت نے کہا کہ حکومت سود کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے اور پارلیمنٹ کے ذریعے اسلامی معیشت کے فروغ پر قانون سازی کی جائے۔ حکومت کا سود کے خلاف اپیلیں واپس لینا خوش آئند، لیکن سب کو معلوم ہے کہ اس وقت ملک کا کاروباری اور بنکنگ نظام آدھا تیتر آدھا بٹیر کی شکل میں چل رہا ہے۔ چاہتے ہیں کہ سود کے خلاف واضح روڈ میپ ہو جو بنک سودی معیشت ترک نہیں کرنا چاہتے، قوم ان کا بائیکاٹ کرے۔ 30نومبر کو کراچی میں علما کانفرنس کے دوران معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے لائحہ عمل دیں گے۔ مالاکنڈ ڈویژن کے مسائل پر جماعت اسلامی 22نومبر کو بٹ خیلہ میں گرینڈ جرگہ منعقد کر رہی ہے۔ خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر کے عوام کے حقوق کے لیے بھرپور اور توانا آواز بلند کرتے رہیں گے۔ جماعت اسلامی ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے عوام کی مدد کی طلب گارہے۔
امیر جماعت نے کہا کہ جماعت اسلامی کے پیش نظر ملک کو جاگیرداروں، وڈیروں اور مافیاز کے چنگل سے آزاد کرانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کا واحد راستہ پُرامن جمہوری جدوجہد ہے۔ امید ہے کہ قوم آزمائے ہوئے لوگوں سے مزید دھوکا نہیں کھائے گی۔ جماعت اسلامی فرد اورمعاشرے کی بہتری چاہتی ہے۔